بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم از روئے تخلیق نور تھے یا بشر؟


سوال

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کس چیز سے پیدا کیا؟  اگر نور سے پیدا کیا تو کس نور سے ذاتی یا خلقی نور سے؟

جواب

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نور سے پیدا نہیں ہوئے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے حضرت آمنہ کے بطن سے پیدا فرمایا ہے۔

کفایت المفتی میں ہے:

’’اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام اور امتی اور فرمانبردار سمجھنا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب اور احترام اور توقیر و تعظیم دائرہ شریعت کے اندر رہ کر بجالانا اور سنن نبویہ کی متابعت کرنا، ایمان و صلاح کی علامات ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو باعتبار حقیقت انسان اور بشر سمجھنا اور باعتبار صفات نور کہنا صحیح ہے۔ ’’أنا من نور الله والخلق من نوري‘‘ کے معنی یہ ہیں:’’أنا منور من نور الله، والخلق منور من نوري‘‘یعنی میں نے روحانیت اور کمال انسانیت کا نور براہ راست حق تعالیٰ سے ّبذریعہ وحی و فیض ربانی حاصل کیا اور تمام مخلوق نے علم و ہدایت اور تزکہ نفس کا نور مجھ سے حاصل کیا، اور ـ’’أول ما خلق نوري‘‘سے جہاں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی اولیت ظاہر ہوتی ہے وہاں یہ بھی تصریحا ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نور مخلوق ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نور ذات خداوندی سے جدا ہے، اس کا جزو نہیں ہے، کیوں کہ نہ ذات خداوندی اجزاء میں تقسیم ہوسکتی ہے، اور نہ اس کا کوئی جزو مخلوق ہوسکتا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو صفات کے لحاظ سے بے مثل کہنا بھی صحیح ہے، کیوں کہ تقرب مالمعراج اور خاتم الانبیاء والمرسلین ہونے میں اور بہت سی صفات ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی مثیل اور نظیر نہیں ہے، مگر آیت ’’انما أنا بشر مثلكم‘‘ كے یہ معنی بیان کرنا کہ ’‘تحقیق میں تمہاری طرح کا بشر نہیں ہوں‘‘ یا ’’ہاں، نہیں ہوں میں تمہارے جیسا بشر‘‘ صحیح نہیں۔ یہ معنی اس پر مبنی ہیں کہ ’’إنما‘‘ میں کلمہ ’’ما‘‘ کے معنی نفی کے کیے جائیں، حالانکہ یہ صحیح نہیں،’’إنما‘‘کو متضمن ’’ما‘‘کو ’’لا‘‘قرار دیا گیا ہے، یعنی نفی اس میں باقی نہیں، ٹوٹ چکی ہے اور اگر ’’ما‘‘ کلمہ نفی قرار دیا جائے تو ’’إلا‘‘ خبر سے پہلے مقدر ماننا پڑے گا اور معنی یوں کرنے ہوں گے: ’’إنما أنا إلا بشر مثلكم‘‘یعنی نہیں میں مگر بشر مثل تمہارے، یعنی حقیقت بشریت میں میں بھی تم جیسا ہوں کہ انسان ہوں، ماں باپ سے پیدا ہوا ہوں، کھاتا ہوں، پیتا ہوں، سوتا ہوں، جاگتا ہوں، چلتا ہوں، پھرتا ہوں، بھول اور ذہول سے مبرا نہیں ہوں، ہاں! بہت سے اوصاف میں’’لست كأحد منكم‘‘ اور ’’أيكم مثلي‘‘فرمانا بھی صحیح اور درست ہے۔ قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کا مخالفین کو جواب اس طرح نقل فرمایا گیا ہے ’’إن نحن إلا بشر مثلكم‘‘یعنی نہیں ہم مگر بشر مثل تمہارے۔‘‘

(کتاب الایمان، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو باعتبار حقیقت بشر اور باعتبار صفات نور سمجھنا، ج: ۱، ص: ۳۸۰، ط: ادارۃ الفاروق کراچی)

باقی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نور تھے یا بشر؟اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور ہونے سے کیا مراد ہے؟  اس حوالے سے مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ کا ایک فتویٰ بعینہ سوال بمع جواب نقل کیا جاتا ہے:

’’سوال: کلامِ پاک کے اندر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے  بشر کا لفظ بھی آیا ہے، اور نور کا لفظ بھی آیا ہے:قل انما انا بشر مثلكم الآية، (الکہف:۱۱۰)، قد جاءكم من اللّه  نور وكتاب مبين، (المائدة:۱۵)، ان دونوں آیتوں کا کیا مطلب ہے؟ واضح طور  پر لکھیں،  ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف نور مان لیں اور بشر نہ مانیں یا بشر مانیں نور نہ مانیں۔۔۔اور نور سے کیا مراد ہے؟

الجواب حامدا و مصلیا:

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اللہ تعالیٰ نے بشر قرار دیا اور بشریت کے اعلان کا حکم فرمایا تو پھر آپ کو بشر نہ ماننا خدائے قہار کا مقابلہ کرنا ہے؟ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نور فرمایا گیا ہے ، اس کا مطلب خود قرآن شریف میں موجود ہے:

{قد ‌جاءكم ‌من ‌الله ‌نور وكتاب مبين يهدي به الله من اتبع رضوانه سبل السلام} أي: طرق النجاة والسلامة ومناهج الاستقامة {ويخرجهم من الظلمات إلى النور بإذنه  ويهديهم إلى صراط مستقيم} أي: ينجيهم من المهالك، ويوضح لهم أبين المسالك فيصرف عنهم المحذور، ويحصل لهم أنجب الأمور، وينفي عنهم الضلالة، ويرشدهم إلى أقوم حالة اه‘‘، تفسير ابن كثير ۳۴/۲۔

یعنی آپ کی ہدایت پر عمل کرنے سے آدمی بادیۂ ضلالت کی تاریکیوں سے نکل کر سبیل الرشاد اور صراط مستقیم کی روشنی میں آجاتا ہے، پھر نافرمانی کی مہلکات سے بچ کر اطاعت کے جادہ مستقیم پر گامزن ہوکر سخط و غضب کے مظہر جہنم سے نجات پاتا اور رحمت و رضوان کے مظہر جنت میں دخول کی سعادت حاصل کرتا ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ صفات بشری کھانے، پینے، سونے، جاگنے، بیٹھنے، لیٹنے، خرید وفروخت، جنگ وصلح، نکاح و طلاق، بیماری وصحت وغیرہ امور سے بے نیازی اور بری تھے۔

کفار کہا کرتے تھے:﴿مَالِ هَذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ ‌وَيَمْشِي ‌فِي الْأَسْوَاقِ﴾  الآية، (الفرقان:۷)

یہ کیسے رسول ہیں  کہ کھانا کھاتے ہیں اور بازاروں میں چلتے پھرتے ہیں؟

البتہ بشر ہونے کے باوجود اللہ پاک نے آپ کو بہت سی خصوصیات سے نوازا، اپنا حبیب و خلیل بنایا، تمام پیغمبروں کا سید بنایا، قرآن کریم آپ پر نازل فرمایا، ہر قسم کے گناہوں سے آپ کو معصوم رکھا، آپ کے صحابہ اور اہل بیت کو وہ درجہ دیا کہ پیغمبروں  کے بعد کسی کو نہیں ملا، اپنی رضا اور نجات کو آپ کی اتباع میں منحصر کر دیا، حتی کہ:

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر"

(کتاب العقائد، باب ما یتعلق بالحاضر والناظر والنور والبشر، ج:1، ص:513، ط:دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)

اس مسئلہ کی مکمل تفصیل بمع حوالہ جات کے لیے حضرت علامہ یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کا مضمون ملاحظہ کریں، جو جامعہ کے ویب سائٹ پر موجود ہے، مندرجہ ذیل لنک پر کلک کریں:

بشریت انبیاء علیہم السلام

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101763

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں