بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام دہ بستر کو ناپسند فرمانے کی تحقیق


سوال

ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے چٹائی کی جگہ نرم بستر کردیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  مجھے نیند نہیں آئی  اور میں کروٹیں بدلتا رہا ۔

یہ واقعہ کس کتاب میں موجود ہے؟ اور  کیا یہ واقعہ صحیح ہے؟

جواب

سوال میں جس  واقعہ سے متعلق  دریافت کیا گیا ہے، اس جیسا  ایک واقعہ  امام ترمذی رحمہ اللہ نے  درج ذیل الفاظ کے ساتھ "شمائل ترمذی" میں ذکر کیا ہے:

"حدثنا أبو الخطاب : زياد بن يحيى البصري، حدثنا عبد الله بن ميمون، أنا جعفر بن محمد، عن أبيه قال: سُئِلتْ عائشة ما كان فراش رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في بيتك؟ قالت: «مِن أَدَمٍ حشوُه مِن لِيف، وسُئِلَتْ حفصة ما كان فراش رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في بيتك؟ قالت: مِسْحًا نَثْنِيْهِ ثَنِيَّتَيْن فينام عليه، فلما كان ذات ليلة قلت: لو ثنيته أربع ثنيات لكان أوطأ له فثنيناه له بأربع ثنيات، فلما أصبح قال: ما فرشتموا لي الليلة؟ قالت: قلنا: هو فراشك إلا أَنَّا ثنيناه بأربع ثَنِيَّات، قلنا: هو أوطأ لك، قال: ردوه لحالته الأولى؛ فإنه منعتني وَطَاءَتُه صَلاتِي الليلة".

(الشمائل المحمدية والخصائل المصطفوية، أبو عيسى الترمذي، ط: المكتبة التجارية- مكة المكرمة، تحقيق: سيد بن عباس الجليمي، الطبعة الأولى، 1413ه-1993م، باب ما جاء في فراش رسول الله - صلى الله عليه وسلم-، ص: 269،270)

ترجمہ:

"حضرت باقر کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے  کسی نے پوچھا کہ: آپ کے یہاں حضور کا بسترہ کیسا تھا؟ انہوں نے فرمایا: کہا:  چمڑہ کا تھا جس کے اندر کھجور کے درخت کی چھال بھری ہوئی تھی۔

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے کسی  نے پوچھا کہ : آپ کے گھر میں حضور کا بستر کیسا تھا؟ انھوں نے فرمایا کہ: ایک ٹاٹ تھا جس کو دوہرا  کر کے ہم حضور کے نیچے بچھا دیا کرتے تھے جس پر حضور سوجاتے تھے۔ ایک روز مجھے خیال ہوا کہ اگر اس کو چوہرا کر کے بچھا دیا جائے تو زیادہ آرام دہ  ہوجائے گا، میں نے ایسے ہی بچھا دیا ۔ حضور نے صبح کو دریافت فرمایا: میرے نیچے رات کو کیا چیز بچھائی تھی؟ میں نے عرض کیا کہ: وہی روز مرہ کا بسترہ تھا، رات  کو اُسے  چوہرا کردیا تھا ؛ تاکہ زیادہ نرم ہوجائے۔ حضور نے فرمایاکہ : اُس کو  پہلے والے حال پر ہی رہنے دو، اس کی نرمی مجھے تہجد کی نماز سے مانع ہوئی"۔

اس روایت میں راوی عبداللہ بن میمون اگرچہ ضعیف ہیں،  لیکن دیگر شواہد کی وجہ سے اس کو ذکر کرنا درست ہے۔

"شعب الإيمان للبيهقي ، ط: مكتبة الرشد،  61/3،  مجمع الزوائد  ومنبع الفوائد  لليثمي ،ط: دار الكتاب العربي، 326/10، وقال الهيثمي: "رواه أحمد، وأبو يعلى، ورجال أحمد رجال الصحيح غير مبارك بن فضالة، وقد وثقه جماعة، وضعفه جماعة."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101085

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں