حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے نام سے قربانی کر سکتے ہیں؟
نبی کریم ﷺ کی طرف سے قربانی کرنا (اس معنی میں کہ قربانی کر کے اس کا ثواب ان کو پہنچا دیا جائے) درست اور باعثِ اجر و ثواب ہے، بلکہ کسی بھی نیک کام کا اجر تمام امتِ محمدیہ ﷺ کو پہنچانا درست ہے، خود نبی اکرم ﷺ نے بھی اپنی امت کی طرف سے قربانی فرمائی تھی۔
مشکاة المصابيح، باب في الأضحية، الفصل الأول، ص:127، ط: هندية:
"عن عائشة أن رسول الله صلی الله علیه وسلم أمربکبش أقرن یطأ في سواد ویبرک في سواد وینظر في سواد، فأتي به لیضحي به، قال: یا عائشة هلمي المدیة! ثم قال: اشحذیها بحجر، ففعلت، ثم أخذها وأخذ الکبش فأضجعه، ثم ذبحه، ثم قال: «بِسْمِ اللهِ اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ»، ثم ضحی به۔ رواه مسلم."
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے مینڈھے کےمتعلق قربانی کا حکم فرمایا جس کے کھر، گھٹنے اور آنکھوں کے حلقے سیاہ تھے، چناں چہ جب وہ آپ ﷺ کے پاس قربانی کے لیے لایا گیا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ چھری لے آؤ، پھر فرمایا: اسے پتھر پر تیز کرلو، چناں چہ میں (حضرت عائشہ) نے چھری تیز کرلی، پھر آپ ﷺ نے چھری لی اور مینڈھے کو پکڑا اور اسے پہلو کے بل لٹاکر یہ فرماتے ہوئے ذبح کیا: اللہ کے نام سے (ذبح کررہاہوں)، اے اللہ اسے محمد (ﷺ) اور آلِ محمد (ﷺ) اور امتِ محمد (ﷺ) کی طرف سے قبول فرمالیجیے۔
مشكاة المصابيح، باب في الأضحية، الفصل الثاني، ص:128، ط: هندية:
"عن حنش قال: رأیت علیاً یضحي بکبشین، فقلت له: ماهذا؟ فقال: إن رسول الله صلی الله علیه وسلم أوصاني أن أضحي عنه، فأنا أضحي عنه۔ رواه أبوداود، وروي الترمذی نحوه".
ترجمہ: حضرت حنش کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو مینڈھے ذبح کرتے دیکھا تو میں نے پوچھا : یہ کیا ہے؟ (یعنی ایک آدمی کی طرف سے کیا ایک ہی قربانی کافی نہیں؟) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺنے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ میں ان کی طرف سے قربانی کیا کروں، چناں چہ میں آپ ﷺ کی طرف سے قربانی کرتاہوں۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 326):
" قال في البدائع: لأن الموت لا يمنع التقرب عن الميت، بدليل أنه يجوز أن يتصدق عنه ويحج عنه، وقد صح «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين: أحدهما عن نفسه، والآخر عمن لم يذبح من أمته»، وإن كان منهم من قد مات قبل أن يذبح" اهـ
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 595):
"الأصل أن كل من أتى بعبادة ما، له جعل ثوابها لغيره وإن نواها عند الفعل لنفسه؛ لظاهر الأدلة. وأما قوله تعالى ﴿ وَاَن لَّيْسَ لِلْإِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى﴾ [النجم: 39] أي إلا إذا وهبه له، كما حققه الكمال، أو اللام بمعنى على كما في ﴿وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ﴾ [غافر: 52] ولقد أفصح الزاهدي عن اعتزاله هنا والله الموفق.
(قوله: بعبادة ما) أي سواء كانت صلاةً أو صوماً أو صدقةً أو قراءةً أو ذكراً أو طوافاً أو حجاً أو عمرةً، أو غير ذلك من زيارة قبور الأنبياء عليهم الصلاة والسلام، والشهداء والأولياء والصالحين، وتكفين الموتى، وجميع أنواع البر، كما في الهندية، ط. وقدمنا في الزكاة عن التتارخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلاً أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات؛ لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شيء." اهـ.
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212200900
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن