بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام پیش کرنے کا ثبوت


سوال

پیارے آقا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کو سلام پیش کرنے کے دلائل بیان کیجئے؟

جواب

 اللہ تعالی نے قرآنِ مجید میں امت کو یہ حکم دیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاہ و سلام بھیجیں،جیسے کہ درجِ ذیل آیتِ کریمہ میں ہے:

"{إِنَّ اللّٰهَ وَمَلَائِکَتَه یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ یَٰأَیُّهَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا}.

"ترجمہ : بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں ان پیغمبر پر،اے ایمان والو تم بھی آپ پر رحمت بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو ۔"

(سورۃ الاحزاب، رقم الآیۃ:56، ط:بیان القرآن)

آیت مبارکہ میں صلاۃ اور سلام کا حکم الگ الگ دیا گیا ہے، صلاۃ کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رفعِ درجات کی دعا کی جائے اور سلام کا معنی یہ ہے کہ "السلام عليك أيها النبي"کہا جائے، گویا جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو سلام کیا جاتا ہے اسی طرح رسول اللہ علیہ وسلم کو بھی سلام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔اور یہ حکم صرف مسجد نبوی کے ساتھ یا قبر اطہر کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ مسلمان دنیا میں کہیں بھی ہے یہ حکم اس کے لیے ہے، اور حدیث شریف میں بھی یہی مذکورہے، جیسے کہ مروی ہے:

"وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن لله ملائكة سياحين في الأرض يبلغوني من أمتي السلام» . رواه النسائي والدارمي."

(مشکاۃ المصابیح، کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ علی النبي، ج: 1، ص: 291، ط: المکتب الإسلامي)

"ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے بعض فرشتے زمین میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں، وہ مجھے میری امت کے افراد کا سلام پہنچاتے رہتے ہیں۔“

تاہم مسجد نبوی کے علاوہ کسی دوسری جگہ سے سلام پیش کرنےمیں خطاب کا صیغہ استعمال نہ کیا جائے ،بلکہ"الصلاة والسلام على رسول الله "کے الفاظ سے درود و سلام پڑھا جائے یا" صلی اللہ علیه وسلم"پڑھا جائے۔

مرقاۃ المفاتیح  شرحِ مشکوۃ المصابیح میں ہے :

"(وعنه) أي: عن ابن مسعود (قال: «قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن لله ملائكة» ) أي: جماعة منهم ( سياحين في الأرض ) أي: سيارين بكثرة في ساحة الأرض من ساح: ذهب، في القاموس: ساح الماء جرى على وجه الأرض، ( يبلغوني ) : من التبليغ، وقيل: من الإبلاغ، وروي بتخفيف النون على حذف إحدى النونين، وقيل: بتشديدها على الإدغام، أي: يوصلون (" من أمتي السلام ") : إذا سلموا علي قليلا أو كثيرا، وهذا مخصوص بمن بعد عن حضرة مرقده المنور ومضجعه المطهر، وفيه إشارة إلى حياته الدائمة وفرحه ببلوغ سلام أمته الكاملة، وإيماء إلى قبول السلام حيث قبلته الملائكة وحملته إليه عليه السلام، وسيأتي أنه يرد السلام على من سلم عليه."

(کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ علی النبی، ج:3، ص:743، ط:دار الفکر)

فقط و اللہ أعلم


فتوی نمبر : 144603103175

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں