بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حدود حرم کی تفصیل


سوال

حدود حرم شہر مکہ سے اتنے زیادہ فاصلے پر کیوں ہے اس کی کوئی وجہ دین اسلام میں بتائی ہے؟

جواب

 واضح  رہے کہ بناءِ  کعبہ کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جبرئیل علیہ السلام کی نشان دہی پر بیت اللہ  کی چاروں اطراف حدودِ حرم کی تحدید فرمائی تھی،  پھر فتحِ  مکہ کے روز خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے  تمیم بن اسد  کو حدودِ حرم کی علامات کی تجدید کا حکم فرمایا تھا، جس کی بجا آوری میں انہوں نے تجدید فرمائی، پھر حضرت عمر پھر حضرت عثمان پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے اپنے اپنے ادوار میں مقرر کردہ حدود کی علامات کی تجدید فرمائی، یہ حد بندی توقیفی ہے  یعنی اللہ تعالی کی جانب سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہے لہذا اس کی  عقلی وجوہات تلاش کرنا بلا سود ہے، پس مدینہ منورہ کی جانب سے ’’تنعیم‘‘ (مسجدِ عائشہ) تقریباً تین میل (بعض نے پانچ میل تک مقدار بتائی ہے)،  یمن کی جانب سے ’’اضاۃلبن‘‘  کے مقام تک، تقریباً سات میل، جدہ کی جانب سے ’’مقامِ حدیبیہ‘‘  کے آخری حصے تک تقریباً دس میل،  جعرانہ  کی جانب سے نو میل،   طائف کی جانب سے عرفات کے مقام بطن عرنہ/ نمرہ تک تقریباً سات میل، عراق کی جانب سے جبل مقطع تک تقریباً سات میل۔مذکورہ بالا تمام مقامات کا اندورنی علاقہ حرم  کہلاتا ہے، جہاں کی ہری گھاس، پودے یا درخت کاٹنا حرام ہے، اور اس اندرونی حصہ میں  شکار  کرنا یا پالتو جانوروں کے علاوہ جانور مارنا بھی (جب تک وہ حملہ نہ کرے) حرام ہے۔  نیز شہر  مکہ تو  زمانے کے گزرنے سے بڑھتا رہا ہے ، شہر مکہ کی حدود توقیفی نہیں ہیں۔مذکورہ  بالااحکام کا تعلق حدود حرم سے ہے  مکہ شہر کی حدود سے نہیں۔

مصنف عبد الرزاق میں ہے:

"عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْأَسْوَدِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ إِبْرَاهِيمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ أَوَّلُ مَنْ نَصَبَ أَنْصَابَ الْحَرَمِ، وَأَشَارَ لَهُ جِبْرِيلُ إِلَى مَوَاضِعِهَا.

قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: وَأَخْبَرَنِي عَنْهُ أَيْضًا: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ يَوْمَ الْفَتْحِ تَمِيمَ بْنَ أَسَدٍ جَدَّ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ تَمِيمٍ فَجَدَّدَهَا."

( بَابُ فَضْلِ الْحَرَمِ، وَأَوَّلُ مَنْ نَصَبَ أَنْصَابَ الْحَرَمِ، 5 / 25، رقم: 8864، المجلس العلمي الهند)

شرح المہذب للنووی میں ہے:

" ذكر الأزرقي وغيره بأسانيدهم أن إبراهيم الخليل عليه السلام علمها, ونصب العلامات فيها ، وكان جبريل عليه السلام يريه مواضعها، ثم أُمر نبينا صلى الله عليه وسلم بتجديدها، ثم عمر، ثم عثمان، ثم معاوية رضي الله عنهم، وهي إلى الآن بينة ولله الحمد، قال الأزرقي في آخر كتاب مكة : أنصاب الحرم التي على رأس الثنية ما كان من وجوهها في هذا الشق فهو حرم، وما كان في ظهرها فهو حل قال: وبعض الأعشاش في الحل وبعضه في الحرم".

(شرح المهذب، 7 / 463 ط: بیروت)

الموسوعة الفقهية الكويتية  میں ہے:

"تَحْدِيدُ حَرَمِ مَكَّةَ: حَدُّ الْحَرَمِ مِنْ جِهَةِ الْمَدِينَةِ الْمُنَوَّرَةِ عِنْدَ التَّنْعِيمِ وَهُوَ عَلَى ثَلاَثَةِ أَمْيَالٍ. وَفِي كُتُبِ الْمَالِكِيَّةِ أَنَّهُ أَرْبَعَةُ أَوْ خَمْسَةُ أَمْيَالٍ. وَمَبْدَأُ التَّنْعِيمِ مِنْ جِهَةِ مَكَّةَ عِنْدَ بُيُوتِ السُّقْيَا، وَيُقَال لَهَا بُيُوتُ نِفَارٍ، وَيُعْرَفُ الآْنَ بِمَسْجِدِ عَائِشَةَ، فَمَا بَيْنَ الْكَعْبَةِ الْمُشَرَّفَةِ وَالتَّنْعِيمِ حَرَمٌ. وَالتَّنْعِيمُ مِنَ الْحِل. وَمِنْ جِهَةِ الْيَمَنِ سَبْعَةُ أَمْيَالٍ عِنْدَ أَضَاةِ لِبْنٍ (بِكَسْرٍ فَسُكُونٍ كَمَا فِي الْقَامُوسِ وَشِفَاءِ الْغَرَامِ) وَمِنْ جِهَةِ جُدَّةَ عَشَرَةُ أَمْيَالٍ عِنْدَ مُنْقَطَعِ الأَْعْشَاشِ لآِخِرِ الْحُدَيْبِيَةِ، فَهِيَ مِنَ الْحَرَمِ. وَمِنْ جِهَةِ الْجِعْرَانَةِ تِسْعَةُ أَمْيَالٍ فِي شِعْبِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَالِدٍ. وَمِنْ جِهَةِ الْعِرَاقِ سَبْعَةُ أَمْيَالٍ عَلَى ثَنِيَّةٍ بِطَرَفِ جَبَل الْمُقَطَّعِ، وَذُكِرَ فِي كُتُبِ الْمَالِكِيَّةِ أَنَّهُ ثَمَانِيَةُ أَمْيَالٍ. وَمِنْ جِهَةِ الطَّائِفِ عَلَى عَرَفَاتٍ مِنْ بَطْنِ نَمِرَةَ سَبْعَةُ أَمْيَالٍ عِنْدَ طَرَفِ عُرَنَةَ.

وَلَعَل الاِخْتِلاَفَ فِي تَحْدِيدِ الأَْمْيَال يَرْجِعُ إِِلَى الاِخْتِلاَفِ فِي تَحْدِيدِ أَذْرُعِ الْمِيل وَأَنْوَاعِهَا. (1) وَابْتِدَاءُ الأَْمْيَال مِنَ الْحَجَرِ الأَْسْوَدِ. هَذَا وَقَدْ حُدِّدَ الْحَرَمُ الْمَكِّيُّ الآْنَ مِنْ مُخْتَلَفِ الْجِهَاتِ بِأَعْلاَمٍ بَيِّنَةٍ مُبَيِّنَةٍ عَلَى أَطْرَافِهِ مِثْل الْمَنَارِ مَكْتُوبٍ عَلَيْهَا اسْمُ الْعَلَمِ بِاللُّغَاتِ الْعَرَبِيَّةِ وَالأَْعْجَمِيَّةِ". (2) البدائع 2 / 164، وحاشية ابن عابدين 2 / 155، 156، ومواهب الجليل 3 / 171، وجواهر الإكليل 1 / 194، ونهاية المحتاج 3 / 345، ومغني المحتاج 1 / 528، وإعلام الساجد 63 - 65، وكشاف القناع 2 / 473، ومطالب أولي النهى 2 / 382، وشفاء الغرام 1 / 54 وما بعدها.)

( 17 / 185 - 186ط: کویت)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101646

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں