بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حصول رزق کے لیے بیرون ملک جانا


سوال

میں قرآن مجید مدرسہ میں پڑھا رہا ہوں،  لیکن گزارا  بہت ہی مشکل سے ہو رہا ہے بیوی کی دوائی کے لیے بھی پیسے نہیں ہوتے میرے لیے مدرسہ کو چھوڑ کر کوئی تجارت یا باہر کے ملک میں کمانے کے لیے جانا درست ہوگا میرے 3بچے بھی ہیں؟

جواب

اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لیے رزق کی ایک مقدار طے کر رکھی،جو اس کو مل کر ہی رہتی ہے،باقی اگر آپ قرآن مجید پڑھاتے ہیں تو یہ ایک دینی خدمت ہے اور بڑی سعادت کی بات ہے، مدرسہ  کی  مصروفیت کو  بالکلیہ ترک کرنے کے بجائے اس کو برقرار  رکھتے   ہوئے  تجارتی  سرگرمیوں کو  اپنانے  میں کوئی حرج  نہیں۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن ابن مسعود قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أيها الناس ليس من شيء يقربكم إلى الجنة ويباعدكم من النار إلا قد أمرتكم به وليس شيء يقربكم من النار ويباعدكم من الجنة إلا قد نهيتكم عنه وإن الروح الأمين وفي رواية وإن روح القدس نفث في روعي أن نفسا لن تموت حتى تستكمل رزقها ألا فاتقوا الله وأجملوا في الطلب ولا يحملنكم استبطاء الرزق أن تطلبوه بمعاصي الله فإنه لا يدرك ما عند الله إلا بطاعته . رواه في شرح السنة والبيهقي في شعب الإيمان إلا أنه لم يذكر وإن روح القدس ."

(کتاب الرقاق، باب التوکل و الصبر: ج: 15، ص: 220-221، ط: المشکاة الإسلامیة)

ترجمہ :" حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ لوگو! کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو تم کو جنت سے قریب کر دے اور دوزخ کی آگ سے دور کر دے علاوہ اس چیز کے جس کو اختیار کرنے کا حکم میں نے تمہیں دیا ہے اور کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو تم کو دوزخ کی آگ سے قریب کر دے اور جنت سے دور کر دے علاوہ اس چیز کے جس سے میں نے تمہیں منع کیا ہے، اور روح الامین۔ یا ایک روایت میں ہے کہ روح القدس (یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام) نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے (یعنی میرے پاس وحی خفی لائے ہیں) کہ بلاشبہ کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرتا جب تک کہ اپنا رزق پورا نہیں کر لیتا (یعنی جو شخص بھی اس دنیا میں آتا ہے وہ اپنے اس رزق کو پائے بغیر دنیا سے نہیں جاتا جو اس کی پیدائش کے ساتھ ہی اسے مقدر میں لکھدیا جاتا ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ نے اس طرف یوں اشارہ فرمایا ہے آیت (اللہ الذی خلقکم ثم رزقکم ثم یمیتکم) پس جب یہ معاملہ ہے کہ جو رزق مقدر ہو گیا ہے وہ ہر حال میں ملے گا تو دیکھو، اللہ کی نافرمانی سے ڈرتے رہو اور حصول معاش کی جدوجہد نیک روی اور اعتدال اختیار کرو تاکہ تمہارا رزق تم تک جائز وحلال وسائل وذرائع اور مشروع طور طریقوں سے پہنچے نیز کہیں ایسا نہ ہو کہ رزق پہنچنے میں تاخیر تمہیں اس بات پر اکسا دے کہ تم گناہوں کے ارتکاب کے ذریعہ رزق حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگو، حقیقت یہ ہے کہ جو چیز اللہ کے پاس ہے اس کو اس کی طاعت وخوشنودی ہی کے ذریعہ پایا جا سکتا ہے ۔ اس روایت کو بغوی نے شرح السنۃ میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے لیکن بیہقی نے وان روح القدس کے الفاظ نقل نہیں کئے ہیں۔"(از مظاہر حق جدید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101192

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں