بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حروف مقطعات سے مراد


سوال

حروف مقطعات سےکیا مراد ہے؟

جواب

جمہور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین  و تابعین رحمہم اللہ اور علماء امت کے نزدیک راجح یہ ہے کہ  یہ حروف رموز اور اسرار ہیں جس کا علم سوائے خدا تعالی کے  کسی اور کو نہیں، اور  ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم بطور ایک راز کے دیا گیا ہو ، جس کی تبلیغ امت کے لیے روک دی گئی ہو اسی لیے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان حروف کی تفسیر و تشریح میں کچھ منقول نہیں،  امام تفسیر قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں اسی کو اختیار فرمایا ہے ، ان کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ :عامر شعبی ، سفیان ثوری اور ایک جماعت محدثین رحمہم اللہ  نے فرمایا ہے کہ ہر آسمانی کتاب میں اللہ تعالیٰ کے کچھ خاص رموز  و اسرار ہوتے ہیں ، اسی طرح یہ حروف مقطعات قرآن میں حق تعالیٰ کا راز ہے ، اس لیے یہ ان متشابہات میں سے ہیں جن کا علم صرف حق تعالیٰ ہی کو ہے ، ہمارے لیے ان میں بحث و گفتگو بھی جائز نہیں ، مگر اس کے باوجود وہ ہمارے فائدے سے خالی نہیں ، اول تو ان پر ایمان لانا پھر ان کا پڑھنا ہمارے لیے ثواب عظیم ہے ، دوسرا ان کے پڑھنے کے معنوی فوائد و برکات ہیں ، جو اگرچہ ہمیں معلوم نہ ہوں مگر غیب  سے وہ ہمیں پہونچتے ہیں پھر فرمایا:حضرت صدیق اکبر ، فاروق اعظم ، عثمان غنی ، علی مرتضیٰ ، عبد اللہ بن مسعود وغیرہ جمہور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ان حروف کے متعلق یہی عقیدہ تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اسرار ہیں ، ہمیں ان پر ایمان لانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں ، اور جس طرح آئے ہیں ان کی تلاوت کرنا چاہیے ، مگر معنی معلوم کرنے کی فکر میں پڑنا درست نہیں ۔ ابن کثیر نے بھی قرطبی وغیرہ سے نقل کر کے اسی مضمون کو ترجیح دی ہے ، اور بعض اکابر علماء سے جو ان حروف کے معنی منقول ہیں اس سے صرف تمثیل و تنبیہ اور تسہیل مقصود ہے ، یہ نہیں کہ مراد حق تعالیٰ یہ ہے ، اس لیے اس کو بھی غلط کہنا تحقیق علماء کے خلاف ہے۔(معار ف القرآن حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"اختلف أهل التأويل في الحروف التي في أوائل السور، فقال عامر الشعبي وسفيان الثوري وجماعة من المحدثين: هي سر الله في القرآن، ولله في كل كتاب من كتبه سر. فهي من المتشابه الذي انفرد الله تعالى بعلمه، ولا يجب «1» أن يتكلم فيها، ولكن نؤمن بها ونقرأ كما جاءت. وروي هذا القول عن أبي بكر الصديق وعن علي بن أبي طالب رضي الله عنهما. وذكر أبو الليث السمرقندي عن عمر وعثمان وابن مسعود أنهم قالوا: الحروف المقطعة من المكتوم الذي لا يفسر. وقال أبو حاتم: لم نجد الحروف المقطعة في القرآن إلا في أوائل السور، ولا ندري ما أراد الله عز وجل بها. قلت: ومن هذا المعنى ما ذكره أبو بكر الأنباري: حدثنا الحسن بن الحباب حدثنا أبو بكر بن أبي طالب حدثنا أبو المنذر الواسطي عن مالك بن مغول عن سعيد بن مسروق عن الربيع بن خثيم «2» قال: إن الله تعالى أنزل هذا القرآن فاستأثر منه بعلم ما شاء، وأطلعكم على ما شاء، فأما ما استأثر به لنفسه فلستم بنائليه فلا تسألوا عنه، وأما الذي أطلعكم عليه فهو الذي تسألون عنه وتخبرون «3» به، وما بكل القرآن تعلمون، ولا بكل ما تعلمون تعملون. قال أبو بكر: فهذا يوضح أن حروفا من القرآن سترت معانيها عن جميع العالم، اختبارا من الله عز وجل وامتحانا، فمن آمن بها أثيب وسعد، ومن كفر وشك أثم وبعد....الخ"

(البقرۃ : ۱ ۔ ۲ بیان الاقوال الواردۃ فی الحروف المقطعة اللتی فی اوائل السورجلد ۱ ص : ۱۵٤ ط : دارالکتب المصریة ۔ القاهرۃ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144310101112

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں