بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بچی نے دودھ پیتے ہی قے کردی ہو، نیز ایک عورت کے دعوی سے ثبوت رضاعت کا حکم


سوال

میرے ماموں کی بیٹی جو مجھ سے تین سال عمر میں چھوٹی ہے جوکہ میری دوسری بہن کی ہم عمر ہے ،  میرے ماموں کی بیوی کہتی ہے کہ ایک بار میری ماں نے غلطی سے میرے ماموں کی بیٹی کو دودھ پلایا تھا، مگر اس نے پیتے ہی الٹی کردی تھی ،مگر میری ماں کہتی ہے کہ مجھے یاد نہیں ہے کہ میں نے دودھ پلایا ہو ،تو کیا اب میں ماموں کی  اس بیٹی سے نکاح کر سکتا ہوں یا نہیں ؟

جواب

      واضح رہےکہ  رضاعت کے ثبوت کے لیے دو عادل مرد  یاایک مرد اور دوعورتوں کی گواہی ضروری ہے، صرف ایک مرد ، یادوعورتوں یاکسی ایک عورت کا قول رضاعت کے ثبوت کے لیے کافی نہیں ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں  سائل کی مامی  کا یہ کہنا کہ سائل کی والدہ نے اس کی بیٹی کو دودھ پلایا ہے، جب کہ اس کے پاس اپنے اس دعوی پر شرعی گواہ نہیں ہیں ، تو ایسی صورت میں سائل اور اس  کی ماموں   کی بیٹی کے درمیان حرمتِ رضاعت ثابت نہیں ہوگی ،تاہم اگر غالب گمان یہ ہوکہ سائل کی مامی   اپنے دعوی  میں   سچی ہے اور دودھ بچی کے حلق میں چلا گیا ہو اور  لوگوں میں یہ بات معروف اور مشہور ہوگئی ہو   تو احتیاطاً یہ  نکاح نہیں کرنا چاہیے ۔

مشکات شریف میں ہے:

"وعن عقبة بن الحارث : أنه تزوج ابنة لأبي إهاب بن عزيز فأتت امرأة فقالت : قد أرضعت عقبة والتي تزوج بها فقال لها عقبة : ما أعلم أنك قد أرضعتني ولا أخبرتني فأرسل إلى آل أبي إهاب فسألهم فقالوا : ما علمنا أرضعت صاحبتنا فركب إلى النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة فسأله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " كيف وقد قيل ؟ " ففارقها عقبة ونكحت زوجا غيره۔"

(كتاب النكاح ، باب المحرمات:2/ 218،ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ:"حضرت عقبہ بن حارث  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ابو اہاب بن عزیز کی بیٹی سے نکاح کیا، پھر ایک عورت آئی وہ کہنے لگی کہ میں نے عقبہ اور اس عورت کو جس سے اس نے نکاح کیا ہے دودھ پلایا ہے، عقبہ نے اس عورت کو کہا کہ مجھے معلوم نہیں کہ تونے مجھے دودھ پلایا اور تو نے مجھے اس سے پہلے اس کی اطلاع بھی نہیں دی ، پھر انہوں نے ایک  شخص کو ابو اہاب کے پاس بھیجا اور اس سے پوچھا کہ تمہاری لڑکی کو کیا اس عورت نے دودھ پلایا ہے ، انہوں نے جواب دیا  ہمیں معلوم نہیں  کہ اس عورت نے ہماری لڑکی کو دودھ پلایا ہے یا نہیں ،چنانچہ عقبہ اسی وقت سوار ہو کر مدینہ منورہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور اس کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا کہ تو اس عورت کو کس طرح  نکاح میں رکھے گا، جب کہ اس کے بارے میں یہ کہہ دیاگیا کہ وہ تیری دودھ شریک بہن ہے، تو عقبہ نے اس عورت کو جداکردیا،اس عورت نے دوسرے خاوند سے نکاح کرلیا۔"(مظاہر حق)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"المرأة إذا جعلت ثديها في فم الصبي ولا تعرف أمص اللبن أم لا ففي القضاء لا تثبت الحرمة بالشك وفي الاحتياط تثبت دخل في فم الصبي من الثدي مائع لونه أصفر تثبت حرمة الرضاع لأنه لبن تغير لونه كذا في خزانة المفتين"

(كتاب الرضاع، 1/ 344،ط: رشيديه )

وفيه ايضا:

"قليل الرضاع وكثيره إذا حصل في مدة الرضاع تعلق به التحريم كذا في الهداية. قال في الينابيع. والقليل مفسر بما يعلم أنه وصل إلى الجوف."

(كتاب الرضاع ،1/ 409، ط: رشيديه)

فتح القدیر میں ہے :

"قوله قليل الرضاع وكثيره سواء إذا تحقق في مدة الرضاع تعلق به التحريم) وبه قال مالك أما لو شك فيه بأن أدخلت الحلمة في فم الصغير وشكت في الارتضاع لا تثبت الحرمة بالشك."

(كتاب الرضاع،3/ 438،ط:دارالفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الرضاع يظهر بأحد أمرين أحدهما الإقرار والثاني البينة كذا في البدائع ولا يقبل في الرضاع إلا شهادة رجلين أو رجل وامرأتين عدول۔"

(كتاب الرضاع،1/ 347،دار الفكر)

خلاصۃ الفتاوی میں ہے:

"ولا يجوز شهادة امرأة واحدة على الرضاع أجنبية كانت أو أم أحد الزوجين، فإن وقع فى قلبه صدق المخبر فالأفضل أن يتنزه قبل العقد و بعده يسعها المقام معه حتى يشهد على ذلك رجلان أورجل وامرأتان عدول، ولا يقبل شهادة النساء وحدهن."

(كتاب النكاح،فصل الرابع فى الرضاع:2/11،ط:رشيدية)

فتاوی تنقیح الحامدیہ میں ہے:

 "(سئل) في شهادة النساء وحدهن على الرضاع هل تقبل؟ (الجواب) : حجة الرضاع حجة المال وهو شهادة عدلين أو عدل وعدلتين ولا يثبت بشهادة النساء وحدهن لكن إن وقع في قلبه صدق المخبر ترك قبل العقد أو بعده كما في البزازية.(أقول) : أي ترك احتياطا."

 (كتاب النكاح ، باب الرضاع :1/ 35،ط:دارالمعرفة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408102286

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں