بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1445ھ 15 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرمت مصاہرت میں شک ہونا


سوال

 میری ایک پڑوس کی پھُوپھی ہے جو کہ اپنی پھُوپھی نہیں ہے، میں اُن کو موٹرسائیکل پر بیٹھا کر مارکیٹ لے گیا تھا اور وہ میرے کندھے پر  سہارے کے لیے ہاتھ رکھے ہوئی تھی ،میرا شرٹ کا کپڑا بھی موٹا تھا اور کاندھے پر دوہرا کپڑا تھا ۔شہوت ہونے یا نہیں ہونے کا کُچھ یاد نہیں ہے ،حرارت محسوس ہونے کا یا نہیں ہونے کا کُچھ یاد نہیں ہے، لیکِن غالب گمان ہے کہ شہوت نہیں تھی اور موٹرسائیکل چلاتے ہوئے شہوت ہونا تھوڑا مُمکن بھی نہیں ہے، کیوں کہ پورا دھیان راستہ پر رہتا ہے ۔میرا رشتہ پھوپھی کی بیٹی سے لگا ہوا تھا ،لیکِن ہم شک اور وسوسہ کی وجہ سے رشتہ سے منع کر دیئے تھے، کہ کہیں حرمتِ مصاہرت ثابت ہو گئی ہوگی؟ لیکِن ایسا نہیں تھا، ہم بعد میں کئی مفتی صاحب اور دارالافتاء سے پورا حال دریافت كرکے فتویٰ لے چکے ہیں، وہ بولے پھُوپھی سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوئی ہے ،آپ پھُوپھی کی بیٹی سے نکاح کر سکتے ہیں، لیکِن اُس دورانِ جب مُجھے حرمتِ مصاہرت کا شک اور وسوسہ تھا تو میں  نےاُس دورانِ سوچا کہ پھوپھی کی بیٹی سے نہیں ہو سکتا ہے تو پھوپھی کی بھتیجی سے کر لیتا ہوں نکاح ، تب مُجھے لگا کہ کہیں پھوپھی کی بھتیجی اصول و فروع میں داخل ہے،  تب ہم  نےایک دارالافتاء سے سوال پوچھا اور سوال میں ہم نے  یہ لکھا تھا کہ میں نے  ایک عورت کو شہوت سے چھوا اور اب اُس کی بھتیجی سے نکاح کرنا چاہتا ہوں ،  مُجھے شہوت کا يقین  نہیں تھا،  بس مسئلہ پوچھنے میں ہم اقرار کر بیٹھے ۔ اب میری پھُوپھی سب کو جب سے فتویٰ پتا چل گیا ہے کہ پھُوپھی سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوئی ہے، اب میرا نکاح پھر سے پھوپھی کی بیٹی سے طے ہو گیا ہے ۔پوچھنا یہ تھا کہ ہم شک اور وسوسہ میں تھے اور ہم مسئلہ پوچھنے کے لیے شہوت کے ہونے کا اقرار کر بیٹھے تھے، کیا صرف جھوٹا اِقرار سے بھی حرمتِ مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے ؟کیوں کہ میں نے دارالعلوم دیوبند کے فتویٰ میں دیکھا ہے ایک شخص اپنی بیوی سے مذاق میں کہے کہ میں نے تمہاری ماں کے ساتھ زنا کیا تو دیوبند والوں نے فتویٰ دیا کہ مذاق میں بھی یہ بولنے سے اقرار کرنے سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے، پورا مسئلہ یہیں اٹکا ہوا ہے کہ ہم پُھوپھی کی بھتیجی سے نکاح کرنے کے لیے مسئلہ پوچھنے میں شہوت کا اقرار کر بیٹھے تھے ، جو کہ مُجھے نہیں شہوت کا یقین تھا نہیں حرارت کا ۔ آپ جتنا جلدی ہو سکے جواب دے دیجیے، آپ کے جواب کے سب لوگ منتظر ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ مس  یعنی چھونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط ہیں:

1)        مس بغیر حائل کے ہو یعنی درمیان میں کوئی کپڑا وغیرہ نہ ہو، یا  درمیان میں حائل اس قدر باریک ہو   کہ اس سے جسم کی حرارت پہنچتی ہو۔ وہ بال جو سر سے نیچے لٹکے ہوئے ہوئے ہیں ان کو چھونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، بلکہ صرف ان بالوں کو چھونے سے حرمت ثابت ہوگی جو سر سے ملے ہوئے ہیں ۔

2)      چھوتے وقت جانبین میں یا کسی ایک میں شہوت  پیدا ہو، مرد کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ   اس کے آلہ تناسل میں انتشار پیدا ہوجائے، اور اگر آلہ تناسل پہلے سے منتشر ہو تو اس میں اضافہ ہوجائے، اور  بیمار  اور بوڑھے  مرد جن کو انتشار نہیں ہوتا اور عورتوں کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ  دل  میں  ہیجان  کی کیفیت پیدا ہو اور دل کو لذت حاصل ہو،اور دل کا ہیجان پہلے سے ہوتو اس میں اضافہ ہوجائے۔

3)      شہوت چھونے کے ساتھ ملی ہوئی ہو ،  اگر چھوتے وقت شہوت پیدا نہ ہو، پھر بعد میں شہوت پیدا ہوتو اس کا اعتبار نہیں ہے،اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

4)      شہوت تھمنے سے پہلے انزال نہ ہوگیا ہو، اگر انزال ہوگیا تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

5)      عورت کی عمر کم از کم نو سال اور مرد کی عمر کم ازکم بارہ سال ہو۔

6)      اگر چھونے والی عورت ہے اور وہ شہوت کا دعوی کرے  یا چھونے والا مرد ہے اور وہ شہوت کا دعوی کرےتو شوہر کو  اس خبر کے سچے ہونے کا غالب گمان ہو، اس لیے اس دعوی سے شوہر کا حق باطل  ہوتاہے ،اس لیے  صرف دعوی کافی نہیں، بلکہ شوہر کو ظن غالب  حاصل ہونا  یا  شرعی گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔

7)      جس کو چھوا جارہا ہو وہ زندہ ہو۔

دارالعلوم دیوبند  کے جس فتوی کا حوالہ مذکور ہے اس کا کوئی حوالہ نہیں  دیا گیا۔نیز سوال میں مذکور عبارت " میں نے دارالعلوم دیوبند کے فتویٰ میں دیکھا ہے ایک شخص اپنی بیوی سے مذاق میں کہے کہ میں نے تمہاری ماں کے ساتھ زنا کیا تو دیوبند والوں نے فتویٰ دیا کہ مذاق میں بھی یہ بولنے سے اقرار کرنے سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے"، میں اقرار زنا کا  ذکر ہے، جب کہ   صورت مسئولہ اس سے مختلف ہے، اس میں زنا کا اقرار نہیں ہے، بلکہ شہوت کے ہونے  کا عدم یقین ہے،نیز شہوت کے غلط اقرار سے شہوت ثابت نہیں ہوتی،  لہذا  صورتِ مسؤلہ میں حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوئی ہے،سائل کا  نکاح پھوپھی کی بیٹی سے بھی جائز ہے اور پھوپھی  کی  بھتیجی  یعنی چچا کی بیٹی سے بھی  نکاح جائز ہے۔

 المبسوط للسرخسی  میں ہے:

"فنقول: كما ثبتت حرمة المصاهرة بالوطء تثبت بالمس والتقبيل عن شهوة عندنا سواء كان في الملك أو في غير الملك، وعند الشافعي - رحمه الله تعالى - لاتثبت الحرمة بالتقبيل والمس عن شهوة أصلاً في الملك أو في غير الملك حتى إنه لو قبل أمته، ثم أراد أن يتزوج ابنتها عنده يجوز. وكذلك لو تزوج امرأة وقبلها بشهوة، ثم ماتت عنده يجوز له أن يتزوج ابنتها بناءً على أصله أن حرمة المصاهرة تثبت بما يؤثر في إثبات النسب والعدة، وليس للمس والتقبيل عن شهوة تأثير في إثبات النسب والعدة، فكذلك في إثبات الحرمة وقاس بالنكاح الفاسد، فإن التقبيل والمس فيه لا يجعل كالدخول في إيجاب المهر والعدة، وكذلك في إيجاب الحل للزوج الأول، فكذا هنا، ولكنا نستدل بآثار الصحابة - رضي الله عنهم -، فقد روي عن ابن عمر - رضي الله عنه - أنه قال: إذا جامع الرجل المرأة أو قبلها بشهوة أو لمسها بشهوة أو نظر إلى فرجها بشهوة حرمت على أبيه وابنه وحرمت عليه أمها وابنتها. وعن مسروق - رحمه الله تعالى - قال: بيعوا جاريتي هذه أما إني لم أصب منها ما يحرمها على ولدي من المس والقبلة، ولأن المس والتقبيل سبب يتوصل به إلى الوطء، فإنه من دواعيه ومقدماته فيقام مقامه في إثبات الحرمة كما أن النكاح الذي هو سبب الوطء شرعاً يقام مقامه في إثبات الحرمة إلا فيما استثناه الشرع وهي الربيبة، وهذا لأن الحرمة تنبني الأحكام كما تقام شبهة البعضية بسبب الرضاع مقام حقيقة البعضية في إثبات الحرمة دون سائر الأحكام، ولو نظر إلى فرجها بشهوة تثبت به الحرمة عندنا استحساناً، وفي القياس لاتثبت، وهو قول ابن أبي ليلى والشافعي - رحمهما الله تعالى - لأن النظر كالتفكر؛ إذ هو غير متصل بها". 

(المبسوط للسرخسی 4/ 207 کتاب النکاح، ط: دارالمعرفہ، بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101684

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں