بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرمت مصاہرت کس چیز سے ثابت ہوتی ہے؟


سوال

 1 کسی جگہ پڑھا تھا کہ مرد کا اپنی بیٹی یا شاید کسی اور محرم عورت کو جوانی کی حالت میں غلطی یا جان بوجھ کر ہاتھ لگانے سے بیوی حرام ہوجاتی ہے، جوانی کی حالت یا شہوت سے کیا مراد ہے ؟تفصیلاً جواب دیں۔

2 کیا صرف محرم عورت کو شہوت کی نیت سے چھونے سے بیوی حرام ہوجاتی ہے؟ یا غیر محرم عورت کو چھونے سے بھی بیوی حرام ہوجاتی ہے ؟

3 کونسی عورتیں ہیں جن کے ساتھ ہمبستری کرنے یا جسم کو شہوت کی نیت سے چھونے سے مرد پر بیوی حرام ہوجاتی ہے ؟

4 اگر کسی مرد کی بیوی اس پر حرام ہوجائے تو کیا اس کا کوئی کفارہ ہے؟ جس سے اس کی بیوی دوبارہ اس پر حلال ہوجائے گی ؟

5کمرے میں داماد، ساس، بیوی بیٹی یا بہن سو رہی تھیں اندھیرے کی وجہ سے شوہر نے صرف کسی کام کی وجہ سے بیوی کو جگانے چاہا مگر اس کا ہاتھ اپنی ساس یا بہن یا بیٹی کی بازو پر یا جسم کے کسی اور حصے پر لگا تو کیا تب بھی اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی؟ حالانکہ نیت صرف کسی کام کے لیے جگانے کی تھی ؟ براہ مہربانی یہ مسائل مجھے تفصیل سے سمجھا دیں ۔

جواب

1۔جوانی کی حالت سے مراد یہ ہےکہ کوئی بالغ یا قریب البلوغ شخص عورت یا مشتہاۃ لڑکی کو چھونےیا بوسہ دینے کےوقت اس کو شہوت ہوتی ہو ،  شہوت سے مراد یہ ہے کہ عورت کو چھونے، بوسہ دینے کے  وقت آلۂ تناسل میں انتشار پیدا ہوجائے، اور  اگر پہلے سےانتشاراور حرکت  ہو تو اس میں اضافہ ہوجائےاور اگرنامردیا ضعیف العمر ہونے کی وجہ سے آلہ میں انتشار پیدا نہ ہو تو پھر شہوت سے مراد یہ ہوگی  کہ دل کے اندرحرکت مشوشہ(دل کی دھڑکن تیز) اور ہیجان کی کیفیت پیدا ہوجائے، واضح رہے کہ مشتہاۃسے مراد ایسی لڑکی جو اگرچہ بالغہ نہ ہو مگر اسے دیکھنے یا ہاتھ لگانے سے شہوت پیداہو  تی ہو، عورت میں  شہوت کی عمر کی حدکم از کم 9 سال ہے۔

2۔اپنی بیوی کے اصول(بیوی کی ماں، دادی، نانی)اوراپنی بیوی کے فروع (بیٹی، پوتی، نواسی)  کو شہوت کے ساتھ چھونے سے مرد پر اس کی بیوی ہمیشہ کے لیے  حرام ہوجاتی ہے،  اسی طرح عورت کامرد کے اصول(باپ، دادا، نانا)ا ورفروع(بیٹا، پوتا، نواسہ)میں سےکسی کوشہوت کے ساتھ چھونے سے  وہ عورت اپنےشوہر  پرہمیشہ کےلیے حرام ہوجاتی ہے،   اگرمیاں بیوی میں سے کسی نے ایک دوسرے کے اصول وفروع  کے علاوہ کسی اور کو شہوت کے ساتھ ہاتھ لگایا تو اس سےحرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی اور میاں بیوی ایک دوسرے پر حرام نہیں ہوتے ہیں۔

3۔بیوی کےاصول اور فروع یعنی ماں،دادی، نانی یابیٹی، پوتی، نواسی میں سے  کسی ایک کے ساتھ ہم بستری کرنے یا ان کے جسم کو شہوت کے ساتھ چھونے سے مرد پر اس کی بیوی ہمیشہ کے لیےحرام  ہوجاتی ہے۔

4۔مرد پر اس کی بیوی حرمت مصاہرت کی وجہ سے حرام ہوجائےتومذکورہ بیوی اس مرد کے لیے کبھی حلال نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اس کا کوئی مالی کفارہ ہے کہ جس سے حلال ہو۔

5۔صورت مسئولہ میں اولاً تو اس طرح ساس اور جوان بیٹی کے ساتھ ایک بستر میں سونا ہی نہیں چاہیے، تاہم اگر مر کاہاتھ  جگاتے وقت اپنی ساس یا بیٹی یابہن کےبازو یا جسم کے کسی اور حصہ پر بغیر شہوت کے لگا ہو، اس صورت میں حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی۔

المحیط البرہانی میں ہے:

"والشهوة: أن تنتشر آلته إليه بالنظر إلى الفرج أو المس إذا لم يكن منتشراً قبل هذا، وإذا كان منتشراً فإن كان يزداد قوة و..... بالنظر والمسّ كان ذلك عن شهوة وما (لا) فلا، وهذا إذا كان شاباً قادراً على الجماع، وإن كان شيخاً أو عنيناً فحدُّ الشهوة أن يتحرك قلبه بالاشتهاء إن لم يكن متحركاً قبل ذلك، ويزداد الاشتهاء إن كان متحركاً فهذا هو ‌حدّ ‌الشهوة التي حكاها.... عن أصحابنا رحمهم الله."

(كتاب النكاح، ‌‌الفصل الثالث عشر في بيان أسباب التحريم، ج:٣، ص:٦٣، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"كما ثبتت ‌حرمة ‌المصاهرة بالوطء تثبت بالمس والتقبيل عن شهوة عندنا."

(كتاب النكاح، ج:٤، ص:٢٠٤،ط:دار المعرفة بيروت)

تبیین الحقائق میں ہے:

"ويشترط أن تكون ‌المرأة ‌مشتهاة قال أبو بكر محمد بن الفضل: بنت تسع سنين مشتهاة."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج:٢، ص:١٠٧، ط:دارالكتاب الاسلامی)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويشترط أن تكون ‌المرأة ‌مشتهاة، كذا في التبيين. والفتوى على أن بنت تسع محل الشهوة لا ما دونها، كذا في معراج الدراية."

(کتاب النکاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، ج:١، ص:١٧٥،ط:دار الفكر بيروت)

تبیین الحقائق میں ہے:

" وحد الشهوة أن تنتشر آلته أو تزداد انتشارا إن كانت منتشرة."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج:٢، ص:١٠٧، ط:دارالکتاب الاسلامی)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"(قال): وإذا وطئ الرجل امرأة بملك يمين أو نكاح أو فجور يحرم عليه أمها وابنتها وتحرم هي على آبائه وأبنائه."

(كتاب النكاح، ج:٤، ص:٢٠٧، ط:دارالمعرفة بيروت)

وفیہ ایضاً:

"ثم ‌حرمة ‌المصاهرة بهذه الأسباب تتعدى إلى آبائه، وإن علوا وأبنائه، وإن سفلوا من قبل الرجال والنساء جميعا، وكذلك تتعدى إلى جداتها وإلى نوافلها لما بيناأن الأجداد والجدات بمنزلة الآباء والأمهات، والنوافل بمنزلة الأولاد فيما تنبني عليه الحرمة."

(كتاب النكاح، ج:٤، ص:٢٠٨، ط:دارالمعرفة بيروت)

وفیہ ایضاً:

"أن الحرمة بسبب المصاهرة مثل الحرمة بالرضاع والنسب، وذلك كما يمنع ابتداء النكاح يمنع بقاء النكاح، فكذلك هذا يمنع بقاء النكاح كما يمنع ابتداءه."

(كتاب النكاح،ج:٤، ص:٢٠٨، ط:دارالمعرفة بيروت)

 فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144409100005

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں