بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرمتِ مصاہرت اور اسی عورت کی لڑکی کی بیٹی سے شادی کرنا


سوال

مذکورہ صورت میں حرمت مصاہرت ثابت ہوگی یا نہیں ؟ اگر کسی شخص  نے ایک عورت کو شہوت کے ساتھ تین چار بار مختلف مواقع پر چھوا ہو اور عورت نے اس مرد کو شہوت کے ساتھ چھوا ہو ۔ اور بوس و کنار بھی کیا اور لیکن جماع نہیں کیا ۔ پہلی مرتبہ تو انزال نہیں ہوا لیکن آخری مرتبہ دونوں کو انزال ہوا ۔ کیا وہ شخص اس عورت کی بیٹی سے نکاح کر سکتا ہے ؟ ہم نے اپنے مقامی مفتیان کرام سے پوچھا ہے ایک نے کہا کہ ان کا نکاح ہوجائے گا اور دوسرے مفتی صاحب نے کہا کہ نہیں ہوگا۔ اگر نکاح کرسکتا ہے تو کس امام کے مسلک کے مطابق کرسکتا ہے اور اگر نکاح نہیں کرسکتا ہے تو کس امام کے مسلک کے مطابق نہیں کرسکتا ہے ؟ وضاحت فرما دیں ۔ اور جواب جلد از جلد ارسال فرمائیں کہ رمضان المبارک کے فوراً بعد ان کا نکاح ہونا ہے ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص نے شہوت کے ساتھ مذکورہ عورت کو جب پہلی  مرتبہ اس طرح چھوا  کہ انزال نہیں ہوا اس سے حرمت مصاہرت ثابت ہو چکی ہے  اوراس   پرعورت  کے اصول و فروع ہمیشہ کو لیے حرام ہو گئے ہیں  اور  اس کے لیے اس عورت  کی بیٹی سے شادی کرنا جائز  نہیں ہے ۔

رہی یہ بات کے کس امام کے مسلک کے مطابق حرام ہوگی،اس سلسلے میں  اصل یہ ہے کہ جس شخص کا جو  مسلک ہے وہ اسی پر عمل کرنے کا پابند ہے ،اور معاملہ واقع ہونے کے بعد دوسرے مسلک کی طرف جانا خواہشات نفس ہے اور حرام ہے لہذا مذکورہ شخص اگر فقہ حنفی کا پیروکار ہے تو شرعاً  تمام امور میں مسلک حنفی کا پابند ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) أصل (ممسوسته بشهوة) ولو لشعر على الرأس بحائل لا يمنع الحرارة و(أصل ماسته) ....(وفروعهن) مطلقا والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قبله أو زيادته ...... هذا إذا لم ينزل فلو أنزل مع مس أو نظر فلا حرمة به يفتي......(قوله: فلا حرمة).... قال في العناية: ومعنى قولهم إنه لا يوجب الحرمة بالإنزال أن الحرمة عند ابتداء المس بشهوة كان حكمهاموقوفا إلى أن يتبين بالإنزال، فإن أنزل لم تثبت، وإلا ثبت لا أنها تثبت بالمس ثم بالإنزال تسقط؛ لأن حرمة المصاهرة إذا ثبتت لا تسقط أبدا."

(‌‌كتاب النكاح،فصل في المحرمات،ج3، ص332-334،ط:سعید)

مقدمہ فتاوی شامی میں ہے:

"(وأن الحكم الملفق باطل بالإجماع، وأن الرجوع عن التقليد بعد العمل باطل اتفاقا).....(قوله: وأن الرجوع إلخ) صرح بذلك المحقق ابن الهمام في تحريره، ومثله في أصول الآمدي وابن الحاجب وجمع الجوامع، وهو محمول كما قال ابن حجر والرملي في شرحيهما على المنهاج وابن قاسم في حاشيته على ما إذا بقي من آثار الفعل السابق أثر يؤدي إلى ‌تلفيق العمل بشيء لا يقول به من المذهبين."

(مقدمۃ، ج1، ص75، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100183

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں