بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرمت مصاہرت کے ثبوت کی صورت میں مذہب غیر اختیار کرنے کا حکم


سوال

 میری عمر 25 سال ہے، میں نے ایک بیوہ سے شادی کی تھی، جس کی پہلے شوہر سے تین بیٹیاں تھیں ، میرے توسط سے ایک لڑکا ہے اور حال ہی میں اہلیہ حاملہ ہوئی ہیں ، مسئلہ یہ ہے کہ بیوی کی بڑی لڑکی جو اس وقت 2018 یا 2019  کے وقت 16یا 17  سال کی ہوگی ،رات ہم سب  چھت پر سو رہے تھے ،بیوی میرے بائیں  طرف تھی ،ایک اور لڑکی بیوی کے بائیں طرف سو رہی تھی اور بڑی لڑکی میرے پاؤں کی طرف سو رہی تھی ،صبح بیدار ہوئے تو بڑی لڑکی کو میں نے بلا حائل لڑکی کے ہونٹ پر بوسہ دیا ،اوربوسہ دیتے وقت شہوت بالکل نہ تھی اورنہ ہی انتشار تھا، نہ پہلے تھا نہ ہی بوسہ دیتے وقت اضافہ ہوا، فورا ہٹ گیا، پھر انتشار محسوس ہوا ،قرائن یہ بھی تھے کہ بیوی دیکھ نہ لے اور خوف تھا ،اضطراری کیفیت تھی ،ڈر تھا، خوف کی وجہ سے بوسہ دیتے وقت انتشار نہ ہوا اور شہوت بھی نہ ہوئی ،چھت بالکل کھلي ہوئی تھی، ڈر تھا کہ کوئی اور شخص بھی نہ دیکھ لے ،البتہ بعد میں شہوت محسوس ہوئی، اب مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ اس سے حرمت مصاہرت ثابت ہوگی یا نہیں ؟اس واقعہ کے بعد بھی ہم ساتھ رہے ،جماع و مباشرت بھی کرتے رہے اور اب حمل بھی ہے ،کیا اتنے دنوں مباشرت حرام ہوئی؟ اور کیا حمل میں جو بچہ ہے وہ ولد الز نا پیدا ہوگا؟   ازراہ کرم پوری تحقیق کے ساتھ جملہ شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے  تشفی بخش جواب عنایت فرمائیں۔

 اس سلسلے میں ایک گزارش یہ تھی کہ اگر حرمت مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے ،جیسا کہ ایک مسئلہ میں بتایا گیا تھا تو اس میں حرج عظیم  لاحق ہو رہا ہے، بہت تکلیف ہو رہی ہے ،کیونکہ پہلے شوہر سے تین بیٹیاں ہیں وہ بھی بڑی بڑی ہیں اور ان کی شادی کا وقت قریب ہے ، گھر میں اخراجات سنبھالنے والا کوئی نہیں ہے ،تنہا عورت ہے اور کوئی بھی ان کی ذمہ داریوں کو لینے والا نہیں ہے پھر دوسرے شوہر سے  دو بچے ہیں ایک پانچ سال کا ہے اور  دوسرا حمل میں ہے، تو اس سلسلے میں عورت بہت ہی شدید تکلیف میں ہے،  اگر دیکھا جائے تو دوسرے مسائل کی طرح اس میں مذہب غیر پر عمل کرنے کی اگر گنجائش ہو، جیسا کہ مفتی تقی عثمانی صاحب نے 2010 میں ادارہ غفران کی طرف سے پوچھی گئی ایک رائے میں ظاہر کیا تھا اورعموماً یہ فتوی نہ دیا جائے ،بلکہ خاص مسئلے میں اگر دیکھا جائے کہ عورت کو شدید تکلیف ہو، اور بچوں کی تربیت کا مسئلہ ہو اور بالخصوص   ایسی صورتحال پیش آ جائے کہ اگر خاندان کے لوگوں کو پتہ چلے، تو دونوں خاندان میں تفریق اور لڑائی جھگڑے ہو جائیں اور  شوہر کو شدید زود و کوب اور تکلیف دیا جائے بلکہ  گھر والوں کی طرف سے  اگر معلوم  چل گیا تو اس کو جیل ہو جائے گی اور بہت تکلیف پہنچائی جائے گی ،تو کیا  اس میں تھوڑی سی گنجائش  محسوس ہو سکتی ہے؟ علماء کرام میں مفتی تقی عثمانی صاحب نے بھی اس میں اپنی رائے ظاہر کی ہے  اور انہوں نے ہی لکھا ہے کہ علامہ زین العابدین نے ایسی صورت میں جب زنا نہ پایا گیا ہو، واضح طور پر زنا نہ پایا گیا ہو، صرف دواعی جماع ہو ں،تو مرجوح قول پر عمل کرنے کی اجازت دی ہے ، اسی طرح علامہ وہبۃ الزہیلی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی  اس صورت میں عدم حرمت کی طرف  اپنی کتاب میں اشارہ کیا ہے ،اور ادارہ غفران جو راولپنڈی پاکستان میں ہے، انہوں نے بھی مذہب غیر پر عمل کرنے کی اجازت دی ہے، تو علماء کرام سے گزارش ہے کہ اس مسئلہ پر غور فرمائیں۔

نیز امت میں اس بات کا معمول بھی رہا ہے کہ دوسرے مذہب پر عمل کرنے کی گنجائش دی جا سکتی ہے ،جب کہ حرمت مصاہرت کے مسئلہ  میں ابھی تک  علماء کا  اتفاق نہیں ہوا ہے، جیسے کہ مفقود الخبر زوجہ کے حکم سے اتفاق ہوا تھا، اسی طرح رویت ہلال کے متعلق بھی بہت سارے مسائل میں احناف کے مسلک سے ہٹ کر کے دوسرے علماء اور دوسرے مسلک پر عمل کرنے کی اجازت دی گئی ہے ، تو اگر اس مسئلہ میں بھی  دوسرے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت دے  دی جائے، تو یہ بہتر ہوگا، خاندان بچ سکتے ہیں ، تو آپ حضرات سے گزارش ہے کہ ان تمام مسائل پر غور و فکر کریں اور  عام اجازت نہ دیتے ہوئے سائل یہ چاہتا ہے کہ اسے خاص اجازت دے دی جائے ،اور ای میل کر دیا جائے کہ آپ مسلک غیر پر عمل کر سکتے ہیں ۔

جواب

واضح رہے کہ احناف کےیہاں حرمتِ مصاہرت  جس طرح نکاح سے ثابت ہوجاتی ہے اسی طرح زنا  اور شرائط معتبرہ کے ساتھ دواعی زنا( شہوت کے ساتھ چھونے اور دیکھنے)  سے بھی ثابت ہوجاتی ہے، لہذااگر   کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرلے ، یا اس سے (خواہ نکاحِ صحیح کے بعد، یا نکاحِ فاسد کے بعد) وطی کرلے ، یا زنا کرے، یا اس عورت کو شہوت کے ساتھ کسی حائل کے بغیر  چھولے یا شہوت کے ساتھ اس کی شرم گاہ کے اندرونی حصہ کی طرف دیکھ  لے؛ تو  ان تمام صورتوں میں حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے، یعنی اس عورت کے اصول وفروع ، مرد پر حرام ہوجاتے ہیں  اور اس مرد کے اصول وفروع ، عورت پر حرام ہوجاتےہیں؛ لہذا مرد پر  ساس اور بیٹی (بشرط یہ کہ بیوی سے دخول کرچکا ہو)کے ساتھ ،اور عورت پر سسر اور بیٹے کے ساتھ ہم بستر ی کرنے یا کسی ایک کا دوسرے کو شهوت کے ساتھ چھونے  یا شرم گاہ کو دیکھنے سےحرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے ،اور شوہر  اور بیوی دونوں ایک دوسرے پرہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتے ہیں ،اور شوہر پر لازم ہوتا ہے کہ وہ ایک طلاق دے کر اپنی بیوی کو جداکردے ،البتہ وہ شهوت جس کے ساتھ چھونے  سے حرمت مصاہر ت ثابت ہوجاتی ہے ،اس کی چند شرائط ہیں :

  • چھونا بغیر کسی حائل کے ہو، یعنی درمیان میں کوئی کپڑا وغیرہ نہ ہو، یا  درمیان میں حائل کپڑا اس قدر باریک ہو   کہ اس سے جسم کی حرارت پہنچتی ہو۔ 
  •  چھوتے وقت جانبین میں یا کسی ایک میں شہوت  پیدا ہو، مرد کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ   اس کے آلہ تناسل میں انتشار پیدا ہوجائے، اور اگر آلہ تناسل پہلے سے منتشر ہو تو اس میں اضافہ ہوجائے، اور  بیمار  اور بوڑھے  مرد جن کو انتشار نہیں ہوتا اور عورتوں کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ  دل  میں  ہیجان  کی کیفیت پیدا ہو،اور دل کا ہیجان پہلے سے ہوتو اس میں اضافہ ہوجائے۔
  •  شہوت چھونے کے ساتھ ملی ہوئی ہو ،  اگر چھوتے وقت شہوت پیدا نہ ہو، پھر بعد میں شہوت پیدا ہوتو اس کا اعتبار نہیں ہے۔
  • شہوت ختم ہونے سے پہلے انزال نہ ہوگیا ہو، اگر انزال ہوگیا تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔
  •  عورت کی عمر کم از کم نو سال اور مرد کی عمر کم ازکم بارہ سال ہو۔

ان تمام شرائط کی موجودگی میں چھونے سے حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے ،خواہ قصداً چھوا ہویابلاارادہ بھول کر یاغلطی سے یا کسی کے زبردستی کرنے پر(مکرہاً) چھوا ہو،ہر حال میں حرمت ثابت ہوجاتی ہے،نیز فقہاء کرام کی تصریح کے مطابق مشتہاۃ کے ہونٹ پر بوسہ دینے کی صورت میں دعوی عدمِ شہوت قابل اعتبار نہیں ہوتا۔

صورت مسئولہ میں سائل کے بیان کے مطابق  واقعي  جب سائل نے   اپنی بیوی کی بڑی لڑکی کو  ہونٹ پر بوسہ دیا ،تو اس صورت میں حرمت مصاہرت ثابت ہوگئی  ،اس لڑکی  کے اصول(ماں ،نانی وغیرہ ) و فروع (بیٹی ،نواسی وغیرہ)سائل پر اور سائل کے اصول و فروع اس لڑکی پر ہمیشہ کے  لیے حرام ہوگئے ہیں ،چنانچہ اس لڑکی  کی ماں (یعنی سائل کی بیوی)  سائل پر ہمیشہ کے  لیے حرام ہوگئی ہے ،سائل پر لازم ہے کہ وہ طلاق یا دیگر علیحدگی کے الفاظ کے ذریعہ بیوی سے علیحدہ ہوجائے۔

نیز کسی شخص کے لیے حرمتِ مصاہرت  کے ثبوت کی صورت میں مذہبِ حنفی سے عدول کرکےمذہب شافعی  اختیار کرنا، یا کسی شخص کا حرمتِ مصاہرت کے مسئلہ میں  مذہبِ غیر پر فتویٰ دینا اور اس بنیاد پر حرمتِ مصاہرت کی شرائط کے ساتھ ثبوت کے باوجود بیوی کو اپنے پاس رکھنا جائز نہیں ہے۔

اس موضوع پر دار الافتاء سے ایک تفصیلی فتویٰ جاری ہوچکا ہے، جس میں تفصیلی حوالہ جات، مذہبِ غیر پر فتویٰ نہ دینے کی وجوہات، زنا اور دواعی زنا سے حرمتِ  مصاہرت کے ثبوت کے شرعی دلائل موجود ہیں،  ذیل میں دیے گیے  لنک سے آپ یہ فتویٰ حاصل کرسکتے ہیں:

حرمتِ مصاہرت میں معاشرے کی ضرورت کی وجہ سے مذہب غیر پر فتوی دینا (تفصیلی فتویٰ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و إذا قبلها ثم قال: لم يكن عن شهوة أو لمسها أو نظر إلى فرجها ثم قال: لم يكن بشهوة فقد ذكر الصدر الشهيد - رحمه الله تعالى - في التقبيل يفتى بثبوت الحرمة ما لم يتبين أنه قبل بغير شهوة وفي المس والنظر إلى الفرج لا يفتى بالحرمة إلا إذا تبين أنه فعل بشهوة؛ لأن الأصل في التقبيل الشهوة بخلاف المس والنظر، كذا في المحيط. هذا إذا كان المس على غير الفرج وأما إذا كان على الفرج فلا يصدق أيضا، كذا في الظهيرية. وكان الشيخ الإمام الأجل ظهير الدين المرغيناني يفتي بالحرمة في القبلة في الفم والخد والرأس وإن كان على مقنعة وكان يقول لا يصدق في أنه لم يكن بشهوة."

  (كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم الثاني المحرمات بالصهرية،ج:1،ص:276،ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) حرم أيضا بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا الوطء الحرام (و) أصل (ممسوسته بشهوة) ولو لشعر على الرأس بحائل لا يمنع الحرارة (وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه (وفروعهن) مطلقا والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قلبه أو زيادته وفي الجوهرة: لا يشترط في النظر لفرج تحريك آلته به يفتى هذا إذا لم ينزل فلو أنزل مع مس أو نظر فلا حرمة به يفتي ابن كمال وغيره.

(قوله: والمنظور إلى فرجها) قيد بالفرج؛ لأن ظاهر الذخيرة وغيرها أنهم اتفقوا على أن النظر بشهوة إلى سائر أعضائها لا عبرة به ما عدا الفرج، وحينئذ فإطلاق الكنز في محل التقييد بحر."

(كتاب النكاح،فصل في المحرمات،ج:3،ص: 32،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ثم المسّ إنما یوجب حرمة المصاهرة إذا لم یکن بینهما ثوبٌ ، أما إذا کان بینهما ثوب فإن کان صفیقاً لا یجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة وإن انتشرت آلته بذلك، وإن کان رقیقاً بحیث تصل حرارة الممسوس إلی یده تثبت، کذا في الذخیرة."

(كتاب النكاح،الباب الثالث في بيان المحرمات ج:1،ص:275،ط:دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

"فلو جامع صغيرة لا تشتهى لا تثبت الحرمة، كذا في البحر الرائق. ولو كبرت المرأة حتى خرجت عن حد المشتهاة يوجب الحرمة؛ لأنها دخلت تحت الحرمة فلم تخرج بالكبر ولا كذلك الصغيرة، كذا في التبيين."

(کتاب النکاح ،باب فی بیان المحرمات،ج:1،ص:275،ط:دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

"ثم لا فرق في ثبوت الحرمة بالمس بين كونه عامدا أو ناسيا أو مكرها أو مخطئا، كذا في فتح القدير. أو نائما هكذا في معراج الدراية."

(کتاب النکاح ،باب فی بیان المحرمات،ج:1،ص:274،ط:دار الفکر)

المبسوط للسرخسی  میں ہے:

"فنقول: كما ثبتت حرمة المصاهرة بالوطء تثبت بالمس والتقبيل عن شهوة عندنا سواء كان في الملك أو في غير الملك، وعند الشافعي - رحمه الله تعالى - لاتثبت الحرمة بالتقبيل والمس عن شهوة أصلاً في الملك أو في غير الملك حتى إنه لو قبل أمته، ثم أراد أن يتزوج ابنتها عنده يجوز. وكذلك لو تزوج امرأة وقبلها بشهوة، ثم ماتت عنده يجوز له أن يتزوج ابنتها بناءً على أصله أن حرمة المصاهرة تثبت بما يؤثر في إثبات النسب والعدة، وليس للمس والتقبيل عن شهوة تأثير في إثبات النسب والعدة، فكذلك في إثبات الحرمة وقاس بالنكاح الفاسد، فإن التقبيل والمس فيه لا يجعل كالدخول في إيجاب المهر والعدة، وكذلك في إيجاب الحل للزوج الأول، فكذا هنا، ولكنا نستدل بآثار الصحابة - رضي الله عنهم -، فقد روي عن ابن عمر - رضي الله عنه - أنه قال: إذا جامع الرجل المرأة أو قبلها بشهوة أو لمسها بشهوة أو نظر إلى فرجها بشهوة حرمت على أبيه وابنه وحرمت عليه أمها وابنتها. وعن مسروق - رحمه الله تعالى - قال: بيعوا جاريتي هذه أما إني لم أصب منها ما يحرمها على ولدي من المس والقبلة، ولأن المس والتقبيل سبب يتوصل به إلى الوطء، فإنه من دواعيه ومقدماته فيقام مقامه في إثبات الحرمة كما أن النكاح الذي هو سبب الوطء شرعاً يقام مقامه في إثبات الحرمة إلا فيما استثناه الشرع وهي الربيبة، وهذا لأن الحرمة تنبني الأحكام كما تقام شبهة البعضية بسبب الرضاع مقام حقيقة البعضية في إثبات الحرمة دون سائر الأحكام، ولو نظر إلى فرجها بشهوة تثبت به الحرمة عندنا استحساناً، وفي القياس لاتثبت، وهو قول ابن أبي ليلى والشافعي - رحمهما الله تعالى - لأن النظر كالتفكر؛ إذ هو غير متصل بها."

 (کتاب النکاح،ج:4،ص:207، ط: دارالمعرفة،بیروت)

       فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: مصاهرةً) كفروع نسائه المدخول بهن، وإن نزلن، وأمهات الزوجات وجداتهن بعقد صحيح، وإن علون، وإن لم يدخل بالزوجات وتحرم موطوءات آبائه وأجداده، وإن علوا ولو بزنى والمعقودات لهم عليهن بعقد صحيح، وموطوءات أبنائه وآباء أولاده، وإن سفلوا ولو بزنى والمعقودات لهم عليهن بعقد صحيح فتح، وكذا المقبلات أو الملموسات بشهوة لأصوله أو فروعه أو من قبل أو لمس أصولهن أو فروعهن." 

 (کتاب النکاح،فصل في المحرمات،ج:3،ص:28،ط: سعید)

          حضرت مولانا مفتی عبدالرحیم  لاجپوری رحمہ اللہ  اسی طرح کے ایک مسئلہ کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں :

”(سوال  ۲۴۷): ایک شخص نے اپنی ساس سے زنا کرلیا ، اس شخص کو اپنے فعل پر ازحد ندامت ہے، لیکن حرمتِ مصاہرت کا مسئلہ ا س کے لیے باعثِ تشویش بنا ہوا ہے کہ اب وہ کیا کرے ؟ ازروئے شرع اس کی بیوی اس پرحرام ہوچکی، اگر وہ اس صورت میں  اپنے فعل کو بیوی سے چھپائے ہوئے طلاق دے کر جدا کرتا ہے تو طلاق دینے کی وجہ سے سسرال والوں  کی طرف سے جان کا خطرہ ہے، سسرال والے دولت وقوت میں  فائق ہونے کے ساتھ ساتھ غنڈے بھی ہیں، اس علاقہ کے تمام لوگ یہ بات جانتے ہیں  اور ان لوگوں  سے خائف رہتے ہیں، نیز اگر وہ شخص اپنے اس برے فعل کااظہار کرتا ہے تو اس صورت میں  بھی جان کا خطرہ ہے تو مذکورہ صورت میں  اختلاف امتی رحمۃ کے پیش نظر امام شافعی ؒ کے مسلک پر (کہ زنا سے حرمتِ مصاحرت ثابت نہیں  ہوتی) عمل کرے تو جائز ہوگایا نہیں؟  بینواتوجروا۔

 (الجواب):فتح القدیر میں  ایک حدیث ہے: "قال رجل: یارسول الله إني زینت بامرأة في الجاهلیة، أفأنکح ابنتها؟ قال : لا أری ذلك، و لایصلح أن تنکح امرأة تطلع من ابنتها علی ماتطلع علیه منها". الخ (فتح القدیر، فصل في بیان المحرمات تحت قوله: لأنها نعمة ج:3،ص:221) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی عورت سے زنا کرے تو اس کی بیٹی اس پرحرام ہے، ہدایہ اولین میں ہے :"ومن زنی با مرأة حرمت علیه أمها وبنتها".  ( ہدایہ اولین، ص ۲۸۹)فتاویٰ تاتارخانیہ میں  ہے: "حرمة الصهر تثبت بالعقد الجائز وبالوطئ حلالاً کان أو حراماً أو عن شبهة أو زناً".( الفصل السابع في أسباب التحریم، ج:۲، ص:618 )

صورتِ مسئولہ میں  ساس سے زنا کیا ہے تو حرمتِ مصاہرت ثابت ہوگئی اور بیوی اس پر حرام ہوگئی، اب شوہر بیوی کو طلاق دے کر علیٰحدہ کر دے ،مذکورہ صورت میں  امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ   کا مسلک چھوڑ کر امام شافعی رحمہ اللہ کا مسلک اختیار کرنے کی اجازت نہیں  دی جاسکتی، جہاں  مسلمانوں  کی کوئی شدید اجتماعی ضرورت داعی ہو (بالفاظِ دیگر عمومِ بلویٰ ہو ) تو ایسے موقع پر کسی خاص مسئلہ میں  کسی دوسرے امام کے قول پر عمل کرنے کی گنجائش ہوسکتی ہے بشرط یہ کہ متبحر علماء اس کا فیصلہ کریں، انفرادی رائے کا کوئی اعتبار نہیں،انفرادی ضرورت کی وجہ سے مذہبِ غیر کو اختیار کرنے کی اجازت نہیں  دی جاسکتی اور خاص کر عورت کی خاطر مذہبِ حق کو چھوڑنا  بڑا خطرناک ہے اور اس سے سوءِ خاتمہ کا اندیشہ ہے، شامی میں  ہے : ایک حنفی المسلک نے اہلِ حدیث(غیر مقلد) کی لڑکی سے نکاح کا پیغام بھیجا ، اس نے کہا: اگر تو اپنا مذہب چھوڑ دے ،یعنی امام کے پیچھے قراء ت اور رفعِ یدین کرے تو پیغام منظور رہے، اس حنفی المسلک نے شرط قبول کرلی اور نکاح ہوگیا ، شیخِ وقت امام ابو بکر جو زجانی رحمہ اللہ نے یہ سنا تو افسوس کیا اور فرمایا:

"النکاح جائز ولکن أخاف علیه أن یذهب ایمانه وقت النزع؛ لأنه استخف بالمذهب الذي هو حق عنده وترکه لأجل جیفة منتة".

یعنی نکاح تو جائز ہے لیکن مجھے اس شخص کے سوءِ خاتمہ کا اندیشہ ہے کہ اس نے ایک عورت کی خاطر اس مذہب کی توہین کی جسے وہ آج تک حق سمجھتا تھا۔ محض عورت کی خاطر اسے چھوڑ دیا"۔ (شامی،باب التعزیر مطلب فیما اذا ارتحل الی مذہب غیرہ ج:3،ص:263،)مذکورہ صورت میں  اختلاف امتی رحمۃ سے استدلال صحیح نہیں  ، جان کا خطرہ ہوتو وہ جگہ چھوڑ دے ، لوگ معمولی باتوں  کی وجہ سے اپنا وطن چھوڑ دیتے ہیں  ،فقط واللہ اعلم بالصواب ۔“

(فتاوی رحیمیہ، محرمات کا بیان، ج:8،ص:211،ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101103

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں