بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرمت مصاہرت کے احکام


سوال

1.کونسی عورتیں ہیں جن کے ساتھ ہمبستری کرنے یا جسم کو شہوت کی نیت سے چھونے سے مرد پر بیوی حرام ہوجاتی ہے ؟

 2 .کسی جگہ پڑھا تھا کہ مرد کا اپنی بیٹی یا شاید کسی اور محرم عورت کو جوانی کی حالت میں غلطی یا جان بوجھ کر ہاتھ لگانے سے بیوی حرام ہوجاتی ہے،جوانی کی حالت یا شہوت سے کیا مراد ہے؟

3. کیا صرف محرم عورت کو شہوت کی نیت سے چھونے سے بیوی حرام ہوجاتی ہے، یا غیر محرم عورت کو چھونے سے بھی بیوی حرام ہوجاتی ہے

4. اگر کسی مرد کی بیوی اس پر حرام ہوجائے تو کیا اس کا کوئی کفارہ ہے جس سے اس کی بیوی دوبارہ اس پر حلال ہوجائے گی ؟

5.کمرے میں داماد، ساس، بیوی ،بیٹی یا بہن سو رہی تھیں، اندھیرے کی وجہ سے شوہر نے صرف کسی کام کی وجہ سے بیوی کو جگانا چاہا ،مگر اس کا ہاتھ اپنی ساس یا بہن یا بیٹی کے بازو پر یا جسم کے کسی اور حصے پر لگا ،تو کیا تب بھی اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی ؟حالانکہ نیت صرف کسی کام کے لیے جگانے کی تھی ؟ 

جواب

1.  حرمتِ مصاہرت  جس طرح نکاح سے ثابت ہوجاتی ہے اسی طرح زنا  اور شرائط معتبرہ کے ساتھ دواعی زنا( شہوت کے ساتھ چھونے اور دیکھنے)  سے بھی ثابت ہوجاتی ہے، لہذااگر   کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرلے ، یا اس سے وطی کرلے خواہ نکاحِ صحیح کے بعد، یا نکاحِ فاسد کے بعد، یا زنا کرے، یا اس عورت کو شہوت کے ساتھ کسی حائل کے بغیر  چھولے یا شہوت کے ساتھ اس کی شرم گاہ کے اندرونی حصہ کی طرف دیکھ  لے تو حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے، یعنی اس عورت کے اصول وفروع ، مرد پر حرام ہوجائیں گے اور اس مرد کے اصول وفروع ، عورت پر حرام ہوجائیں گے،لہذا مرد پر  ساس اور بیٹی (بشرط یہ کہ بیوی سے دخول کرچکا ہو)کے ساتھ ،اور عورت پر سسر اور بیٹے کے ساتھ ہم بستر ی کرنے یا کسی ایک کا دوسرے کو شھوت کے ساتھ چھونے سےحرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے ،اور شوہر  اور بیوی دونوں ایک دوسرے پرہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتے ہیں ۔

2.وہ شھوت جس کے ساتھ چھونے سے حرمت مصاہر ت ثابت ہوجاتی ہے ،اس کی چند شرائط ہیں :

  • چھونا بغیر کسی حائل کے ہو، یعنی درمیان میں کوئی کپڑا وغیرہ نہ ہو، یا  درمیان میں حائل کپڑا اس قدر باریک ہو   کہ اس سے جسم کی حرارت پہنچتی ہو۔ 
  •  چھوتے وقت جانبین میں یا کسی ایک میں شہوت  پیدا ہو، مرد کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ   اس کے آلہ تناسل میں انتشار پیدا ہوجائے، اور اگر آلہ تناسل پہلے سے منتشر ہو تو اس میں اضافہ ہوجائے، اور  بیمار  اور بوڑھے  مرد جن کو انتشار نہیں ہوتا اور عورتوں کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ  دل  میں  ہیجان  کی کیفیت پیدا ہو،اور دل کا ہیجان پہلے سے ہوتو اس میں اضافہ ہوجائے۔
  •  شہوت چھونے کے ساتھ ملی ہوئی ہو ،  اگر چھوتے وقت شہوت پیدا نہ ہو، پھر بعد میں شہوت پیدا ہوتو اس کا اعتبار نہیں ہے۔
  • شہوت ختم ہونے سے پہلے انزال نہ ہوگیا ہو، اگر انزال ہوگیا تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔
  •  عورت کی عمر کم از کم نو سال اور مرد کی عمر کم ازکم بارہ سال ہو۔

ان تمام شرائط کی موجودگی میں چھونے سے حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے ،خواہ قصداً چھوا ہویابلاارادہ بھول کر یاغلطی سے یا کسی کے زبردستی کرنے پر(مکرہاً) چھوا ہو،ہر حال میں حرمت ثابت ہوجاتی ہے۔

3.جیسا کہ جواب نمبر 1 میں واضح ہوا کہ جس عورت کو شھوت کے ساتھ چھوا جائے ،اس کے اصول وفروع چھونے والے مرد پر حرام ہوجاتے ہیں ،لہذا اگر بیوی کے اصول (ساس ) یا فروع (بیٹی ) کو شھوت کے ساتھ چھوا جائے ،تو ایسی صورت میں بیوی اپنے شوہر پر ہمیشہ کےلیے حرام ہوجاتی ہے،اوراگر کسی اور اجنبی عورت کو شھوت کے ساتھ چھوا ہو،تو اس کے اصول وفروع حرام ہوجائیں گے ،لیکن بیوی حرام نہیں ہوگی۔

4.واضح رہے کہ مذکورہ حرمت حرمتِ مؤبدہ ہوتی ہے،جس کے بعد کسی صورت میں اس مرد وعورت کا نکاح دوبارہ نہیں ہوسکتا۔نیزحرمت مصاہرت ثابت ہونے کی صورت میں زوجین کا نکاح ختم نہیں ہوتا،بلکہ صرف فاسد ہوجاتاہے، ایسی صورت میں مرد   پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر علیحدہ کردے یا پھرعورت  عدالت کے مسلمان جج  کے ذریعہ نکاح کو فوری طور پر فسخ کرائے ،اور اس کے بعد ہی عورت کے لیے عدت گذار کر کسی دوسری جگہ نکاح جائز ہوگا،اور تاخیر کی صورت میں عورت شوہر سےمکمل  علیحدہ رہنے کی کوشش کرے ۔

5.صورت مسئولہ  میں جب شوہرنےاپنی ساس یا بہن یا بیٹی کے جسم کے کسی حصہ کو چھوا ،تو اگر اس واقعہ میں وہ تمام شرائط موجود ہوں ،جو کہ جواب نمبر 2 کے ذیل میں مذکور ہیں،تو ایسی صورت میں حرمت مصاہرت ثابت ہوجائے گی اگر چہ نیت صرف جگانے  ہی کی کیوں نہ ہو،البتہ اگر ساس یا بیٹی کو چھوا ہو تو شوہر پر اس کی بیوی حرام ہوگی ،اور اگر بہن کوچھوا ہو،تو حرمت مصاہرت تو ثابت ہوجائے گی ،البتہ بیوی حرام نہیں ہوگی،اور اگر زیر نظر صورت میں مذکورہ شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی مفقود ہو،تو حرمت مصاہرت کا حکم نہیں لگے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) حرم أيضا بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا الوطء الحرام (و) أصل (ممسوسته بشهوة) ولو لشعر على الرأس بحائل لا يمنع الحرارة (وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه (وفروعهن) مطلقا والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قلبه أو زيادته وفي الجوهرة: لا يشترط في النظر لفرج تحريك آلته به يفتى هذا إذا لم ينزل فلو أنزل مع مس أو نظر فلا حرمة به يفتي ابن كمال وغيره.

(قوله: والمنظور إلى فرجها) قيد بالفرج؛ لأن ظاهر الذخيرة وغيرها أنهم اتفقوا على أن النظر بشهوة إلى سائر أعضائها لا عبرة به ما عدا الفرج، وحينئذ فإطلاق الكنز في محل التقييد بحر."

(كتاب النكاح،فصل في المحرمات،ج:3،ص: 32،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ثم المسّ إنما یوجب حرمة المصاهرة إذا لم یکن بینهما ثوبٌ ، أما إذا کان بینهما ثوب فإن کان صفیقاً لا یجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة وإن انتشرت آلته بذلك، وإن کان رقیقاً بحیث تصل حرارة الممسوس إلی یده تثبت، کذا في الذخیرة."

(كتاب النكاح،الباب الثالث في بيان المحرمات ج:1،ص:275،ط:رشيديه )

وفیہ ایضاً:

"فلو جامع صغيرة لا تشتهى لا تثبت الحرمة، كذا في البحر الرائق. ولو كبرت المرأة حتى خرجت عن حد المشتهاة يوجب الحرمة؛ لأنها دخلت تحت الحرمة فلم تخرج بالكبر ولا كذلك الصغيرة، كذا في التبيين."

(کتاب النکاح ،باب فی بیان المحرمات،ج:1،ص:275،ط:رشیدیہ)

وفیہ ایضاً:

"ثم لا فرق في ثبوت الحرمة بالمس بين كونه عامدا أو ناسيا أو مكرها أو مخطئا، كذا في فتح القدير. أو نائما هكذا في معراج الدراية."

(کتاب النکاح ،باب فی بیان المحرمات،ج:1،ص:274،ط:رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"وبحرمة المصاهرة لا يرتفع النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد المتاركة وانقضاء العدة، والوطء بها لا يكون زنا، وفي الخانية إن النظر إلى فرج ابنته بشهوة يوجب حرمة امرأته وكذا لو فزعت فدخلت فراش أبيها عريانة فانتشر لها أبوها تحرم عليه أمها (وبنت) سنها (دون تسع ليست بمشتهاة) به يفتى.

(قوله: إلا بعد المتاركة) أي، وإن مضى عليها سنون كما في البزازية، وعبارة الحاوي إلا بعد تفريق القاضي أو بعد المتاركة. اهـ.وقد علمت أن النكاح لا يرتفع بل يفسد وقد صرحوا في النكاح الفاسد بأن المتاركة لا تتحقق إلا بالقول، إن كانت مدخولا بها كتركتك أو خليت سبيلك، وأما غير المدخول بها فقيل تكون بالقول وبالترك على قصد عدم العود إليها.وقيل: لا تكون إلا بالقول فيهما، حتى لو تركها، ومضى على عدتها سنون لم يكن لها أن تتزوج بآخر فافهم."

(کتاب النکاح ،فصل فی المحرمات،ج:3،ص:37،ط:سعید)

فقط والله اعلم

 


فتوی نمبر : 144410100593

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں