بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرمت مصاہرت کو معلق کرنا


سوال

جِس طرح نکاح سے پہلے طلاق کو نکاح کے بعد کے لئے معلّق یا مشروط کر دیا جائے تو نکاح کے بعد طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔(1)کیا حرمتِ مصاہرت کو بھی معلّق کیا جا سکتا ہے مثلاً کوئی ایسی عورت کے ساتھ حرمتِ مصاہرت ثابت ہو سکتا ہے جیسے نا کبھی دیکھا ہو نا کبھی چھوا ہو کیا صرف کوئی زبانی الفاظ سے یا کسی طرح کے کوئی اِقرار کے ایسی عورت کے ساتھ حرمتِ مصاہرت ثابت ہو سکتی ہے؟

جواب

حرمت مصاہرت کو معلق نہیں کیا جاسکتا ہے  اور حرمت مصاہرت کو  معلق کرنے سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی، البتہ وطی،  دواعی وطی ،  شہوت کے ساتھ مس کرنے کی صورت میں شرائط کے ساتھ حرمت مصاہرت ثابت ہوتی ہے،  زبانی الفاظ اور جھوٹے اقرار سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ثم لا فرق في ثبوت الحرمة بالمس بين كونه عامدا أو ناسيا أو مكرها أو مخطئا، كذا في فتح القدير. أو نائما هكذا في معراج الدراية."

(کتاب النکاح ،باب فی بیان المحرمات،ج:1،ص:274،ط:رشیدیہ)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قال في النهر وأقول: التعليل بعدم الاشتهاء يفيد أن من لا يشتهي لا تثبت الحرمة بجماعه ولا خفاء أن ابن تسع عار من هذا، بل لا بد أن يكون مراهقا، ثم رأيته في الخانية قال الصبي الذي يجامع مثله كالبالغ قالوا وهو أن يجامع ويشتهي، وتستحي النساء من مثله وهو ظاهر في اعتبار كونه مراهقا لا ابن تسع، ويدل عليه ما في الفتح مس المراهق كالبالغ وفي البزازية المراهق كالبالغ حتى لو جامع امرأته أو لمس بشهوة تثبت حرمة المصاهرة. اهـ.وبه ظهر أن ما عزاه الشارح إلى الفتح وإن لم يكن صريح كلامه لكنه مراده. فتحصل من هذا: أنه لا بد في كل منهما من سن المراهقة وأقله للأنثى تسع وللذكر اثنا عشر؛ لأن ذلك أقل مدة يمكن فيها البلوغ كما صرحوا به في باب بلوغ الغلام، وهذا يوافق ما مر من أن العلة هي الوطء الذي يكون سببا للولد أو المس الذي يكون سببا لهذا الوطء، ولا يخفى أن غير المراهق منهما لا يتأتى منه الولد."

(کتاب النکاح ،فصل فی المحرمات ،ج:3،ص:35،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100463

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں