بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرمت والے مہینوں میں عمرہ ادا کرنے سے حج کی فرضیت کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص اَشہرِ حرم (حرمت والے مہینوں) میں عمرہ کی ادائیگی کے لیے گیاتو کیا اس پر حج فرض ہوجاتاہے؟

جواب

 اشہر حرم چار مہینوں کو کہا جاتا ہے، یعنی: ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب۔ اور  اشہر حج تین ماہ کہلاتے ہیں: شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ (یعنی عشرہ ذی الحجہ)۔

اگر کوئی شخص محرم اور رجب میں عمرہ کرتاہے تو اس پر ان مہینوں میں عمرہ کرنے سے حج فرض نہیں ہوتا۔

البتہ اشہر حج یعنی شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ میں عمرہ کرنے سے حج کی فرضیت و عدم فرضیت سے متعلق کچھ تفصیل ہے جو کہ درج ذیل ہے:

اگر کوئی ایسا شخص جس پر حج فرض نہ تھا،  وہ رمضان میں عمرہ کرنے گیا، پھر عید کے بعد شوال کے مہینے میں اس نے عمرہ کرلیا، یا ماہِ شوال میں اپنے وطن سے عمرہ کی ادائیگی کے لیے گیا (یعنی اشہر حج:  شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کے دس دن میں سے کچھ حصہ وہ مکہ مکرمہ یا میقات کے اندرموجود ہو)  اور اس کے پاس حج کے ایام تک قیام کے مصارف واسباب مہیا ہوں نیز اہلِ خانہ کے نان نفقے کا بھی انتظام ہو اور حکومت کی طرف سے اس کو حج تک رکنے کی اجازت بھی ہو اور اس نے پہلے حج فرض بھی نہ کیا ہو تو  اس پر حج فرض ہو جائے گا، اور اگر حج کے ایام تک قیام کے مصارف واسباب مہیا نہ ہوں، یا پھر قیام کے مصارف واسباب تو ہوں، لیکن اہلِ خانہ کے نفقے کا انتظام نہ ہو، یا وہاں قیام کے اسباب بھی میسر ہوں اور اہلِ خانہ کے نفقے کا انتظام بھی ہو، لیکن حکومت کی طرف سے حج کے ایام تک قیام کرنے کی اجازت نہ ہو (جیساکہ موجودہ زمانہ میں ہوتا ہے)، تو اب اُس پر حج فرض نہیں ہوگا۔

مذکورہ آخری صورت کہ  ”حج کے ایام تک  قیام کے مصارف واسباب  تو ہوں، لیکن حکومت کی طرف سے حج کے ایام تک قیام کرنے کی اجازت نہ ہو“ یہ امام صاحب رحمہ اللہ کے قول پر مبنی ہے، اور صاحبین رحمھما اللہ کی بھی ایک روایت یہی ہے،  نیز یہ کہ کوئی  غریب آدمی جس کے اوپر حج فرض نہیں تھا اور وہ  عمرہ کرنے گیا اور اشہر حج (شوال، ذی قعدہ، اور ذی الحجہ کے دس دن) کا کچھ حصہ وہاں پالیا تو اگر اس پر حج فرض قرار دیا جائے  تو  موجودہ زمانہ میں اس میں حرج بہت زیادہ ہے، اس لیے کہ مذکورہ شخص اس سال حج پر قدرت بایں معنی نہیں رکھتا کہ  وہاں کی حکومت کی طرف سے رمضان میں عمرہ کرنے والے کے لیے حج تک قیام کرنے کی اجازت نہیں ہے، اگر پتا چلے تو گرفتار کر لیا جائے گا،  اور اس کے لیے  گھر واپس آنے کے بعد دوبارہ حج کے لیے جانے میں اس پر بہت مشقت اور حرج ہوگا؛ کیوں کہ اس کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے،  یہ اسے  تکلیف مالا یطاق کا مکلف بنانا ہے، علامہ شامی رحمہ اللہ نے  اس جیسے اعذار کے بارے میں   شیخ عبدالغنی نابلسی رحمۃ اللہ علیہ کا فتوی نقل کیا ہے کہ ان کے نزدیک راجح اور مفتی بہ یہی ہے کہ مذکورہ اعذار کی وجہ سے اس کے اوپر حج فرض نہیں ہے۔

اور جو شخص اپنا فرض حج پہلے کرچکا ہے، اس پر شوال میں عمرہ کرنے سے حج فرض نہیں ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 459):

"(صحيح) البدن (بصير) غير محبوس وخائف من سلطان يمنع منه .

(قوله: صحيح البدن) أي سالم عن الآفات المانعة عن القيام بما لا بد منه في السفر، فلايجب على مقعد ومفلوج وشيخ كبير لايثبت على الراحلة بنفسه وأعمى، وإن وجد قائداً، ومحبوس، وخائف من سلطان لا بأنفسهم، ولا بالنيابة في ظاهر المذهب عن الإمام وهو رواية عنهما وظاهر الرواية عنهما وجوب الإحجاج عليهم، ويجزيهم إن دام العجز وإن زال أعادوا بأنفسهم.
والحاصل: أنه من شرائط الوجوب عنده ومن شرائط وجوب الأداء عند هما وثمرة الخلاف تظهر في وجوب الإحجاج والإيصاء كما ذكرنا وهو مقيد بما إذا لم يقدر على الحج وهو صحيح فإن قدر ثم عجز قبل الخروج إلى الحج تقرر دينا في ذمته، فيلزمه الإحجاج، فلو خرج ومات في الطريق لم يجب الإيصاء لأنه لم يؤخر بعد الإيجاب ولو تكلفوا الحج بأنفسهم سقط عنهم وظاهر التحفة اختيار قولهما، وكذا الإسبيجابي وقواه في الفتح ومشى على أن الصحة من شرائط وجوب الأداء اهـ من البحر والنهر، وحكى في اللباب اختلاف التصحيح وفي شرحه أنه مشى على الأول في النهاية وقال في البحر العميق إنه المذهب الصحيح وأن الثاني صححه قاضي خان في شرح الجامع واختاره كثير من المشايخ ومنهم ابن الهمام، (قوله: بصير) فيه الخلاف المار كما علمته، (قوله: غير محبوس) هذا من شروط الأداء كما مر والظاهر أنه لو كان حبسه لمنعه حقا قادرا على أدائه لايسقط عنه وجوب الأداء.
[تنبيه]ذكر في شرح اللباب عن شمس الإسلام أن السلطان ومن بمعناه من الأمراء ملحق بالمحبوس فيجب الحج في ماله الخالي عن حقوق العباد وتمامه فيه ولا يخفى أن هذا إن دام عجزه إلى الموت وإلا فيجب عليه الحج بنفسه بعد زوال عذره وهو مقيد أيضا بما إذا كان قادرا على الحج ثم عجز وإلا فلا يلزمه الإحجاج على الخلاف المذكور آنفاً (قوله: يمنع منه) أي من الحج أي الخروج إليه ط".

وفیه أیضًا (2/ 460) :

"في اللباب: الفقير الآفاقي إذا وصل إلى ميقات فهو كالمكي قال شارحه أي حيث لايشترط في حقه إلا الزاد والراحلة إن لم يكن عاجزاً عن المشي، وينبغي أن يكون الغني الآفاقي كذلك إذا عدم الركوب بعد وصوله إلى أحد المواقيت فالتقييد بالفقير لظهور عجزه عن المركب".

وفیه أیضًا (2/ 604) :

" وأفتى سيدي عبد الغني النابلسي بخلافه وألف فيه رسالة؛ لأنه في هذا العام لايمكنه الحج عن نفسه؛ لأن سفره بمال الآمر فيحرم عن الآمر ويحج عنه، وفي تكليفه بالإقامة بمكة إلى قابل ليحج عن نفسه ويترك عياله ببلده حرج عظيم، وكذا في تكليفه بالعود وهو فقير حرج عظيم أيضاً.
وأما ما في البدائع فإطلاقه الكراهة المنصرفة إلى التحريم يقتضي أن كلامه في الصرورة الذي تحقق الوجوب عليه من قابل كما يفيده ما مر عن الفتح، نعم قدمنا أول الحج عن اللباب وشرحه أن الفقير الآفاقي إذا وصل إلى ميقات فهو كالمكي في أنه إن قدر على المشي لزمه الحج".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200259

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں