بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرمت رضاعت اور رضاعی محرمات سے متعلق متفرق احکام


سوال

اگرکسی کی اولاد نہ ہو، اوروہ نومولود بچہ گود لیں،تو  اس کو کتنے دن یا کتنی مقدار دودھ پلانے کا حکم ہے؟ نیزخالہ اور پھوپھو  کتنی دیر یا دن دودھ پلانے سے  محرم بن سکتے ہیں؟

جواب

شریعت کی رو سے رضاعت (بچے کو دودھ پلانے)  کی مدت دو سال ہے،   خواہ لڑکا ہو یا لڑکی،  دو سال کے بعد دودھ پلانا جائز نہیں ہے، البتہ  اگر کسی بچہ یا بچی کو کسی شرعی مجبوری کی وجہ سے  ڈھائی  سال کےاندار اگر دودھ پلایاگیا ہو،تو اس سے بھی حرمتِ رضاعت بھی ثابت ہوجاتی ہے،  نیز دودھ پلانےکی کوئی خاص مقدار نہیں ہے،مدت رضاعت کے دوران ایک دفعہ بھی دودھ پلایایا پھر تھوڑا سا دودھ بھی بچے کے حلق میں چلاگیا توحرمت رضاعت ثابت ہوجائے گی،اور دودھ پلانے والی عورت اس  بچہ کی رضاعی ماں اور دیگر رشتہ دار اس کےرضاعی رشتہ دار بن جائیں گے، نیز کسی بچہ کی خالہ یا پھوپھو تو پہلے سے ہی محرم رشتہ داروں میں سے ہے،البتہ اگر اس بچہ کو خالہ یا پھوپھو مدت رضاعت کے دوران دودھ پلادے،تو حرمت رضاعت کی بنا پر خالہ اورپھوپھو کی اولاد اس بچے کے حق میں محرم بن جائیں گے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"قليل الرضاع وكثيره إذا حصل في مدة الرضاع تعلق به التحريم كذا في الهداية. قال في الينابيع. والقليل مفسر بما يعلم أنه وصل إلى الجوف كذا في السراج الوهاج، ووقت الرضاع في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - مقدر بثلاثين شهرا وقالا مقدر بحولين هكذا في فتاوى قاضي خان.

يحرم على الرضيع أبواه من الرضاع وأصولهما وفروعهما من النسب والرضاع جميعا."

(كتاب الرضاع، ج:1، ص:342 / 343، ط :دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(مص من ثدي آدمية) ولو بكرا أو ميتة أو آيسة، وألحق بالمص الوجور والسعوط (في وقت مخصوص) هو (حولان ونصف عنده وحولان) فقط (عندهما وهو الأصح) فتح وبه يفتى كما في تصحيح القدوري عن العون، لكن في الجوهرة أنه في الحولين ونصف، ولو بعد الفطام محرم وعليه الفتوى....(ويثبت التحريم) في المدة فقط ولو (بعد الفطام والاستغناء بالطعام على) ظاهر (المذهب) وعليه الفتوى فتح وغيره...(ويثبت به) ولو بين الحربيين بزازية (وإن قل) إن علم وصوله لجوفه من فمه أو أنفه لا غير.

وفي الرد:(قوله في المدة فقط) أما بعده فإنه لا يوجب التحريم بحر."

(كتاب النكاح، باب الرضاع، 209 الي 211، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144405100682

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں