بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرمتِ مصاہرت کے ثبوت میں شک ہونے کی صورت میں حرمت کے ثبوت کا حکم


سوال

۱۔حرمتِ مصاہرت میں شہوت کے ہونے یا نہ ہونے میں بھی شک ہو ،یقین نہ ہو،حرارت محسوس ہونے یا نہ ہونے میں بھی شک ہو ،یقین نہ ہو، اور چھوا بھی ڈبل کپڑے کے اوپر سے ہو ،تو اس صورت میں حرمتِ مصاہرت ثابت ہوگی یا نہیں ہوگی؟

۲۔حرمتِ مصاہرت کے بارے میں ، میں نے بہت ساری کتابیں پڑھی ہے ،اور آپ سے ایک مرتبہ فتویٰ بھی لے چکا ہوں،ان تمام سے یہ معلوم ہوا کہ حرمتِ مصاہرت شک سے ثابت نہیں ہوتی ہے،جب کہ میرا سوال یہ ہے کہ شک کی وجہ سے حرمتِ مصاہرت کیوں ثابت نہیں ہوتی؟جب کہ شہوت کے ہونے یا نہ ہونے کا یقین نہ ہو بلکہ شک ہو اور غالب گمان ہو ،یہ بھی تو ممکن ہے کہ غالب گمان غلط قائم ہواورشک صحیح ہو ،دنیا میں تو اس کا پتہ نہیں چلے گا ،لیکن مرنے کے بعد ہی پتہ چلے گا،تو ایسی صورت میں نکاح کا کیا حکم ہے؟آیا یہ نکاح زناکی حیثیت تو اختیار نہیں کرے گا۔

۳۔اسی طرح کتب میں یہ بات بھی لکھی ہوئی ہے کہ حرمتِ مصاہرت کے ثبوت کےلیے ضروری ہےکہ کپڑا اتنا باریک ہو کہ بدن کی گرمی محسوس ہوسکے،جب کہ میرا سوال یہ ہے کہ باریک کپڑے سے کیامراد ہے؟کیونکہ بدن کی حرارت تو صرف سویٹر یاجیکٹ وغیرہ  کی صورت میں محسوس نہیں ہوتی ،باقی موٹے سے موٹے کپڑے میں بھی بدن کی کچھ ناکچھ  حرارت محسوس ہوہی جاتی ہے۔

جواب

۱۔واضح رہے کہ حرمتِ مصاہرت میں شہوت کے ہونے یا نہ ہونے میں شک ہو،اسی طرح حرارت محسوس ہونے میں بھی شک ہو ،تو ان صورتوں میں صرف شک کی بناءپر حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوتی ، بلکہ حرمتِ مصاہرت کے ثبوت کے لیے ضروری شرائط میں سے شہوت کا بالیقین ہونا یا  شہوت کا غالب گمان کے درجہ میں ہونا ضروری ہے؛لہذا صورتِ مذکورہ میں اگر واقعی شہوت کا یقین یا ظنِ غالب نہ ہو، نہ  ہی حرارت محسوس ہونے کا یقین یا ظنِ غالب ہو ، اور چھوا بھی ڈبل کپڑے کے اوپر سے ہو ،یعنی اس طرح چھوا ہو کہ بدن کی گرمی محسوس نہ ہوئی ہو تو اس صورت میں حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوئی ہے۔

۲۔واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی طاقت کے بقدر مکلف بنایا ہے ،قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے،’’اللہ تعالیٰ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتامگر اسی کا جو اس کی طاقت اور اختیار میں ہو‘‘،اسی لیے شریعت مطہرہ میں جہاں یقین نہ ہو وہاں پر غالب گمان پر احکام کا دارومدار رکھا گیا ہے ، اور اسی  کے مطابق فیصلےکیے جاتے ہیں، جیسےاگر کسی شخص کو قبلہ کی سمت معلوم نہ ہو،اور کوئی سمتِ قبلہ کے بارے میں بتانے والا بھی نہ ہو (یعنی کوئی شخص ایسا نہ ہو جس سے سمتِ قبلہ کے بارے میں پوچھاجائے) تو اس نمازی کےلیے تحری( غور وفکر)  کرکے سمتِ قبلہ کی تعیین کا حکم دیا گیا ہے،اور جس جانب گمانِ غالب ہو اسی جانب رُخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے، پھراگرچہ اسے نماز مکمل کرنے کے بعد معلوم ہوجائے کہ وہ اپنی تحری میں غلط سمت   کی طرف رخ کرکےنماز پڑھ رہا تھا تواس کی نماز ادا ہوجائے گی؛ لہذا صورت ِ مسئولہ میں سائل کا یہ کہنا کہ شک کی وجہ سے کیوں ثابت نہیں ہوتی، اور غالب گمان کا ہوناکیوں ضروری ہے،تو یہ خارج عن العقل بات ہے،حرمتِ مصاہرت کی صورت میں بھی شک کی وجہ سے حرمت ثابت نہیں ہوگی ،بلکہ حرمت کے ثبوت یقین کا ہونا یا پھر کم از کم غالب گمان کا ہونا ضروری ہے ۔

جہاں تک آخرت میں مواخذہ کی بات ہے تو وہاں بھی حکم کا دارومدار غالب گمان پر  ہی ہے؛ لہذا ایسی صورت میں گمانِ غالب پر عمل کیا جائے اور بے جا قسم کے وسوسوں کا شکار نہ ہوں۔

۳۔اسی طرح حرمتِ مصاہرت کے ثبوت کےلیے اگرشہوت کے ساتھ کپڑے کےاوپر سے چھوا ہے تو کپڑے کا اس قدر باریک ہونا ضروری ہے کہ جس کی وجہ سے بدن کی گرمی  محسوس ہوسکے ،اور جو کپڑ ا اس طرح ہوگاکہ اس سے بدن کی گرمی محسوس ہوسکے اور شہوت میں اضافہ کا باعث بنے ،تو اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجائے گی ،اگر کپڑے اس قدر باریک نہ ہو بلکہ موٹا ہو تو اس صورت میں کپڑے کے اوپر چھولینے سے حرارت محسوس نہیں ہوتی اور  حرمت ثابت نہیں ہو تی ہے، باقی سائل کایہ اصرار کہ موٹے کپڑے کے اوپر سے بھی حرارت محسوس ہوتی ہے،یہ سائل کا وہم معلوم ہوتاہے جو کہ مشاہدہ کے خلاف ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"لَا يُكَلِّفُ اللّـٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا."(آیت:286)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وحرم أيضا بالصهرية أصل مزنيته أراد بالزنافي الوطء الحرام و أصل ممسوسته بشهوة  ولو لشعر على الرأس بحائل لا يمنع الحرارة.......قوله: بحائل لا يمنع الحرارة أي ولو بحائل إلخ، فلو كان مانعا لا تثبت الحرمة، كذا في أكثر الكتب....وإن كان على المقنعةمحمول على ما إذا كانت رقيقة تصل الحرارة معها بحر.قوله:وأصل ماسته أي بشهوة قال في الفتح: وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها، ويقع في أكبر رأيه صدقها."

(کتاب النکاح ،فصل في المحرمات،ج:3،ص:32،33،ط:ایچ ایم سعید)

وفیه ایضاً:

"ويتحرى هو بذل المجهود لنيل المقصود عاجز عن معرفة القبلة بما مر فإن ظهر خطؤه لم يعد لما مر.....قوله لما مر وهو كون الطاعة بحسب الطاقة."

(كتاب الصلاة، باب الأذان، باب شروط الصلاة، مطلب في سترالعورة،ج:1، ص:433، ط: ایچ ایم سعید)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"انصرف اللمس إلى أي موضع من البدن بغير حائل، وأما إذا كان بحائل فإن وصلت حرارة البدن إلى يده تثبت الحرمة وإلا فلا، كذا في أكثر الكتب، فما في الذخيرة من أن الشيخ الإمام ظهير الدين يفتي بالحرمة في القبلة على الفم والذقن والخد والرأس وإن كان على المقنعة محمول على ما إذا كانت المقنعة رقيقة تصل الحرارة معها كما قدمناه وقيد بكون اللمس عن شهوة؛ لأنه لو كان عن غير شهوة لم يوجب الحرمة........وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها ‌ويقع ‌في ‌أكبر ‌رأيه ‌صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقها أو يغلب على ظنه صدقها ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذلك."

(کتاب النکاح،فصل في المحرمات في النكاح،ج:3،ص:107،ط:دار الكتاب الإسلامي)

ملاحظہ:واضح رہے کہ حرمتِ مصاہرت صرف دیکھنے سے یا صرف چھونے سے ثابت نہیں ہوتی ہے، بلکہ حرمتِ مصاہرت کےثبوت کےلیے چند اسباب کا معتبر شرائط کے ساتھ پایا جانا ضروری ہے،اگر کوئی ایک سبب یا اسباب کی شرائط میں کوئی شرط نہیں پائی گئی تو حرمت ثابت نہیں ہوگی۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100007

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں