بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرمتِ مصاہرت کے ثابت ہونے کے لیے حائل کے باریک یا موٹے ہونے کا اعتبار ہوگا یا حرارت کے محسوس ہونے اور نہ ہونے کا؟


سوال

حرمت مصاہرت کے ثبوت کے متعلق ایک سوال تھا کہ چھوتے وقت درمیان میں حائل شدہ کپڑے کے باریک ہونے کے باوجود اگر حرارت محسوس نہ ہو یا کپڑے چار ہوں ،حرارت محسوس نہ ہونے کی صورت یہ ہے کہ انسان بسا اوقات کسی کے ساتھ جڑ کر بیٹھا تو ہوتا ہے لیکن دوسرے شخص کی جسم کی گرمائش کم ہوتی ہے یا کم نہ بھی ہو پھر بھی اس کی طرف دھیان نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے کے جسم کی حرارت محسوس نہیں ہوتی، جیسے گاڑی میں سفر کرتے ہوئے یا جیسے انسان نماز کے اندر تشہد کی حالت میں جڑ کر بیٹھا ہو، لیکن جس کا دھیان مکمل نماز پر ہو تو اس کو پاس بیٹھے شخص کی جسم کی حرارت محسوس نہیں ہوتی ،تو کیا مبتلا شخص کو حرارت کا محسوس ہونا بھی ضروری ہے یا صرف کپڑا باریک ہو تو ثابت ہو جاتی ہے؟ کیوں کہ بسا اوقات انسان اپنے خیال میں ہوتا ہے اور اسی خیال میں ہوتے ہوئے آلہ حرکت کر جاتا ہے لیکن وہ اپنی سوچ میں ہوتا ہے اس لئے اس کو پاس بیٹھے دوسرے انسان کی جسم کی حرارت کا اندازہ ہی نہیں ہوتا؟

جواب

واضح رہے کہ حائل کے ساتھ کسی خلافِ جنس کو چھونے کی صورت میں حرمتِ مصاہرت تب ہی ثابت ہوگی جب وہ حائل ایسا ہو جس میں چھونے والے کو دوسرے کی حرارت محسوس ہوتی ہو،اگر وہ حائل ایسا نہیں ہے تو اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی اگر چہ چھونے والے نے دوسرے کو شہوت کے ساتھ ہی چھو اہو۔

صورتِ مسئولہ میں اگر کسی آدمی کو دوسرے کسی خلافِ جنس کے ساتھ لگ کر بیٹھنے کی وجہ سے شہوت آجائے،لیکن حائل ہونے کی وجہ سے دوسرے کی حرارت محسوس نہ ہو تو اس صورت میں حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی،اسی طرح حائل اگر چہ باریک ہو لیکن چھونے والے کو کسی دوسری چیز کی طرف دھیان ہونے کی وجہ سےشہوت آئے،اس کے لگ کر بیٹھنے یاچھونے کی وجہ سے شہوت نہ آئی ہو، تب بھی جس کے ساتھ لگ کر بیٹھا ہے اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

"رد المحتار على الدر المختار"میں ہے:

"و أصل ممسوسته بشهوة ولو لشعر على الرأس بحائل لا يمنع الحرارة وأصل ماسته.

قوله: بحائل لا يمنع الحرارة: أي ولو بحائل إلخ، فلو كان مانعا لا تثبت الحرمة، كذا في أكثر الكتب، وكذا لو جامعها بخرقة على ذكره..."

(ص:32،ج:3،کتاب النکاح،فصل فی المحرمات،ط:ایج ایم سعید)

وفیه ايضا:

"والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قبله أو زيادته.

قوله: والعبرة إلخ: قال في الفتح: وقوله: بشهوة في موضع الحال، فيفيد اشتراط الشهوة حال المس، فلو مس بغير شهوة، ثم اشتهى عن ذلك المس لا تحرم عليه. اهـ.وكذلك في النظر كما في البحر، فلو اشتهى بعدما غض بصره لا تحرم قلت: ويشترط وقوع الشهوة عليها لا على غيرها."

(ص:33،ج:3،کتاب النکاح،فصل فی المحرمات،ط:ایج ایم سعید)

"ألفتاوي الهندية"میں ہے:

"ولا تثبت بالنظر إلى سائر الأعضاء إلا بشهوة ولا بمس سائر الأعضاء لا عن شهوة بلا خلاف...ثم لا فرق في ثبوت الحرمة بالمس بين كونه عامدا أو ناسيا أو مكرها أو مخطئا، كذا في فتح القدير. أو نائما هكذا في معراج الدراية."

(ص:274،ج:1،کتاب النکاح،الباب الثالث فی بیان المحرمات،ط:دار الفکر،بیروت)

وفيه ايضا:

"ثم المس إنما يوجب حرمة المصاهرة إذا لم يكن بينهما ثوب، أما إذا كان بينهما ثوب فإن كان صفيقا لا يجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة وإن انتشرت آلته بذلك وإن كان رقيقا بحيث تصل حرارة الممسوس إلى يده تثبت، كذا في الذخيرة."

(ص:275،ج:1،کتاب النکاح،الباب الثالث فی بیان المحرمات،ط:دار الفکر،بیروت)

"بدائع الصنائع"میں ہے:

"وتثبت باللمس فيهما عن شهوة وبالنظر إلى فرجها عن شهوة عندنا ولا تثبت بالنظر إلى سائر الأعضاء بشهوة ولا بمس سائر الأعضاء إلا عن شهوة بلا خلاف."

(ص:260،ج:2،کتاب النكاح،فصل المحرمات بالمصاهرة،ط:دار الکتب العلمیة)

"ألموسوعة الفقهية الكويتية"میں ہے:

"ذهب جمهور الفقهاء إلى أن المس بغير شهوة لا يؤثر في حرمة المصاهرة فمن مس امرأة بغير شهوة أو قبلها فله أن يتزوج بنتها أو أمها ويجوز لها الزواج بأصوله أو فروعه، وكذلك من مس أم امرأته أو قبلها بغير شهوة لا تحرم عليه امرأته...وذهب الحنفية إلى أن المس بشهوة يوجب حرمة المصاهرة...واشترط الحنفية الشهوة حال المس، فلو مس بغير شهوة ثم اشتهى بعد ذلك المس لا تحرم عليه."

(ص:284،ج:37،تحت لفظ المس،‌‌أثر المس في حرمة المصاهرة،ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101172

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں