بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چھونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کی علت


سوال

سسر کا بہو کو شہوت کے ساتھ چھولینے سے حرمتِ مصاہرت کیوں ثابت ہوجاتی ہے ؟ علت کیا ہے؟

جواب

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اصل مدار ثبوتِ احکامِ شرعیہ کا نصوصِ شرعیہ ہیں، جن کے بعد ان کے امتثال اور قبول کرنے میں ان میں کسی مصلحت و حکمت کے معلوم ہونے کا انتظار کرنا بالیقین حضرت سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ بغاوت ہے، جس طرح دنیوی سلطنتوں کے قوانین کی وجوہ و اسباب اگر کسی کو معلوم نہ ہوں اور وہ اس معلوم نہ ہونے کے سبب ان قوانین کو نہ مانے اور یہ عذر کردے کہ بدون وجہ معلوم کیے ہوئے میں اس کو نہیں مان سکتا، تو کیا اس کے باغی ہونے میں کوئی عاقل شبہ کرسکتا ہے؟ تو کیا احکامِ شرعیہ کا مالک ان سلاطینِ دنیا سے بھی کم ہوگیا؟ غرض اس میں کوئی شک نہ رہا کہ کہ اصل مدار ثبوتِ احکامِ شرعیہ فرعیہ کا نصوصِ شرعیہ ہیں، لیکن اسی طرح اس میں  بھی شبہ نہیں کہ باوجود اس کے پھر بھی ان احکام میں بہت سے مصالح اور اسرار بھی ہیں اور گو مدار ثبوتِ احکام کا ان پر نہ ہو جیسا کہ اوپر مذکور ہوا، لیکن ان میں یہ خاصیت ضرور ہے کہ بعض طبائع کے لیے ان کا معلوم ہوجانا احکامِ شرعیہ میں مزید اطمینان پیدا ہونے کے لیے ایک درجہ میں معین ضرور ہے، گو اہلِ یقین راسخ کو اس کی ضرورت نہیں لیکن بعض ضعفا ء کے لیے تسلی بخش وقوت بخش بھی ہے،البتہ    شریعتِ مطہرہ کے احکام میں موجود اسرار اور حِکم تک کبھی کبھار انسانی  عقول  اور درایت  کی رسائی ہوتی ، اور کبھی کبھار انسان کی کوتاہ عقلیں اس کا ادراک نہیں کر پاتیں ۔

الحاصل: اَصل بات تو یہ ہے کہ اللہ جل شانہ اور رسول اللہ ﷺ کا جو بھی  حکم ہو،اس پر عمل کرنا لازم وضروری ہے، تاہم  مؤمن کی شان تو یہی ہے کہ وہ دین کے اَحکام کو حکمِ خداوندی سمجھ کر تسلیم کرلے، خواہ اس کی حکمت و مصلحت اور علت سمجھ میں آئے یا نہیں۔ 

  تمہید کے بعدسوال کا جواب یہ ہے، کہ شریعتِ مطہرہ میں  باپ کے لیے بیٹے کی  منکوحہ  یعنی بہو اور بیٹے کے لیے والد کی منکوحہ سے نکاح حرام قرار دیا ہے،اسلام میں    باپ کے لیے بیٹے کی بیوی یعنی بہو اور بیٹے کے لیے والد کی منکوحہ سے نکاح حرام قرار دینے کی  منجملہ حکمتوں میں سے ایک وجہ  حکمت  فقہاء نے یہ لکھی ہے، کہ ،اگر اس نکاح کا جواز ہوجائے،تو والد اور بیٹے کے درمیان قطع تعلقات اور قطعیت رحم کا قوی اندیشہ ہے،جو کہ حرام ہے، اس حرمت کا سبب بن جانے کی وجہ سے باپ اور بیٹے کے لیے ایک دوسرے کی ازواج  حرام قرار دیا گیا ہے۔

 یہ حرمت جس طرح نکاح اسی طرح زنا  اور دواعی زنا سے بھی ثابت ہوتی ہے، اس لیے  کہ حرمت کے ثبوت کے لیے شریعت نے دواعی زنا بمنزلہ زنا شمار کیا ہے، اسی بنیاد پر سسر کا بہو کو شہوت   کے ساتھ چھونے پر  حرمت مصاہرت کے ثبوت کا فتوی دیا جاتاہے۔

"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع" میں ہے:

"‌‌[فصل المحرمات بالمصاهرة فحليلة الابن من الصلب وإن سفل]

(فصل) :وأما الفرقة الثالثة فحليلة الابن من الصلب وابن الابن وابن البنت وإن سفل فتحرم على الرجل ‌حليلة ‌ابنه من صلبه بالنص وهو قوله عز وجل:{وحلائل أبنائكم الذين من أصلابكم} [النساء: 23]وذكر الصلب جاز أن يكون لبيان الخاصية وإن لم يكن الابن إلا من الصلب لقوله تعالى:{ولا طائر يطير بجناحيه} [الأنعام:38] وإن كان الطائر لا يطير إلا بجناحيه وجاز أن يكون لبيان القسمة والتنويع؛ لأن الابن قد يكون من الصلب وقد يكون من الرضاع وقد يكون بالتبني أيضا على ما ذكر في سبب نزول الآية؛ لأن النبي - صلى الله عليه وسلم - لما تزوج امرأة زيد بن حارثة بعد ما طلقها زيد وكان ابنا لرسول الله - صلى الله عليه وسلم - بالتبني فعابه المنافقون على ذلك، وقالوا: إنه تزوج بحليلة ابنه فنزل قوله تعالى: {وحلائل أبنائكم الذين من أصلابكم} [النساء: 23]وكذلك قوله تعالى:{فلما قضى زيد منها وطرا زوجناكها لكي لا يكون على المؤمنين حرج في أزواج أدعيائهم إذا قضوا منهن وطرا}[الأحزاب: 37] ولأن حليلة الابن لو لم تحرم على الأب فإذا طلقها الابن ربما يندم على ذلك ويريد العود إليها فإذا تزوجها أبوه أورث ذلك الضغينة بينهما.والضغينة تورث القطيعة، وقطع الرحم حرام فيجب أن يحرم حتى لا يؤدي إلى الحرام ولهذا حرمت منكوحة الأب على الابن كذا هذا سواء كان دخل بها الابن أو لم يدخل بها؛ لأن النص مطلق عن شرط الدخول والمعنى لا يوجب الفصل أيضا على ما ذكرنا؛ ولأن العقد سبب إلى الدخول والسبب يقام مقام المسبب في موضع الاحتياط على ما مر، وحليلة ابن الابن وابن البنت وإن سفل تحرم بالإجماع أو بما ذكرنا من المعنى لا بعين النص؛ لأن ابن الابن يسمى ابنا مجازا لا حقيقة فإذا صارت الحقيقة مرادة لم يبق المجاز مرادا لنا إلا على قول من يقول: إنه يجوز أن يرادا من لفظ واحد - والله الموفق -. 

‌‌[فصل المحرمات بالمصاهرة فمنكوحة الأب وأجداده وإن علوا]

(فصل) :وأما الفرقة الرابعة فمنكوحة الأب وأجداده من قبل أبيه وإن علوا،.أما منكوحة الأب: فتحرم بالنص وهو قوله:{ولا تنكحوا ما نكح آباؤكم من النساء} [النساء: 22]والنكاح يذكر ويراد به العقد وسواء كان الأب دخل بها أو لا؛ لأن اسم النكاح يقع على العقد والوطء فتحرم بكل واحد منهما على ما نذكر؛ ولأن نكاح منكوحة الأب يفضي إلى قطيعة الرحم؛ لأنه إذا فارقها أبوه لعله يندم فيريد أن يعيدها فإذا نكحها الابن أوحشه ذلك وأورث الضغينة، وذلك سبب التباعد بينهما وهو تفسير قطيعة الرحم وقطع الرحم حرام فكان النكاح سر سبب الحرام وأنه تناقض فيحرم دفعا للتناقض الذي هو أثر السفه والجهل جل الله تعالى عنهما.وأما منكوحة أجداده فتحرم بالإجماع وبما ذكرنا من المعنى لا بعين النص إلا على قول من يرى الجمع بين الحقيقة والمجاز في لفظ واحد عند عدم النافي ثم حرمة المصاهرة تثبت بالعقد الصحيح وتثبت بالوطء الحلال بملك اليمين حتى إن من وطئ جاريته تحرم عليه أمها وابنتها وجداتها وإن علون وبنات بناتها وإن سفلن وتحرم هي على أب الواطئ وابنه وعلى أجداد أجداد الواطئ وإن علوا، وعلى أبناء أبنائه وإن سفلوا.وكذا تثبت بالوطء في النكاح الفاسد وكذا بالوطء عن شبهة بالإجماع، وتثبت باللمس فيهما عن شهوة وبالنظر إلى فرجها عن شهوة عندنا ولا تثبت بالنظر إلى سائر الأعضاء بشهوة ولا بمس سائر الأعضاء إلا عن شهوة بلا خلاف."

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع،لعلاء الدين، أبو بكر بن مسعود الكاساني الحنفي الملقب بـ «بملك العلماء» (ت ٥٨٧ هـ، ج:2، ص:260، ط: دار الكتب العلمية) 

فتاوی شامی میں ہے:

"ثم لا فرق في ثبوت الحرمة بالمس بين كونه عامدا أو ناسيا أو مكرها أو مخطئا، كذا في فتح القدير. أو نائما هكذا في معراج الدراية".

(کتاب النکاح، باب في بیان المحرمات، ج:1، ص:274، ط:رشیدیة)

وفیہ ایضاً:

"ثم المس إنما يوجب حرمة المصاهرة إذا لم يكن بينهما ثوب، أما إذا كان بينهما ثوب فإن كان صفيقا لا يجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة وإن انتشرت آلته بذلك وإن كان رقيقا بحيث تصل حرارة الممسوس إلى يده تثبت، كذا في الذخيرة. وكذا لو مس أسفل الخف إلا إذا كان منعلا لا يجد لين القدم، كذا في فتاوى قاضي خان".

(کتاب النکاح، باب في بیان المحرمات، ج:1، ص:275، ط:رشیدیة)

وفیہ ایضاً:

"وهي أربع فرق: (الأولى) أمهات الزوجات وجداتهن من قبل الأب والأم وإن علون (والثانية) بنات الزوجة وبنات أولادها وإن سفلن بشرط الدخول بالأم، كذا في الحاوي القدسي سواء كانت الابنة في حجره أو لم تكن، كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان. وأصحابنا ما أقاموا الخلوة مقام الوطء في حرمة البنات هكذا في الذخيرة في نوع ما يستحق به جميع المهر. (والثالثة) حليلة الابن وابن الابن وابن البنت وإن سفلوا دخل بها الابن أم لا. ولا تحرم حليلة الابن المتبنى على الأب المتبني هكذا في محيط السرخسي.(والرابعة) نساء الآباء والأجداد من جهة الأب أو الأم وإن علوا فهؤلاء محرمات على التأبيد نكاحًا و وطئًا، كذا في الحاوي القدسي."

(کتاب النکاح، باب في بیان المحرمات، ج:1، ص:275، ط:رشیدیة)

وفیہ ایضاً:

"قال في النهر وأقول: التعليل بعدم الاشتهاء يفيد أن من لا يشتهي لا تثبت الحرمة بجماعه ولا خفاء أن ابن تسع عار من هذا، بل لا بد أن يكون مراهقا، ثم رأيته في الخانية قال الصبي الذي يجامع مثله كالبالغ قالوا وهو أن يجامع ويشتهي، وتستحي النساء من مثله وهو ظاهر في اعتبار كونه مراهقا لا ابن تسع، ويدل عليه ما في الفتح مس المراهق كالبالغ وفي البزازية المراهق كالبالغ حتى لو جامع امرأته أو لمس بشهوة تثبت حرمة المصاهرة. اهـ.وبه ظهر أن ما عزاه الشارح إلى الفتح وإن لم يكن صريح كلامه لكنه مراده. فتحصل من هذا: أنه لا بد في كل منهما من سن المراهقة وأقله للأنثى تسع وللذكر اثنا عشر؛ لأن ذلك أقل مدة يمكن فيها البلوغ كما صرحوا به في باب بلوغ الغلام، وهذا يوافق ما مر من أن العلة هي الوطء الذي يكون سببا للولد أو المس الذي يكون سببا لهذا الوطء، ولا يخفى أن غير المراهق منهما لا يتأتى منه الولد".

(کتاب النکاح، فصل فی المحرمات، ج:3،ص:35، ط:سعید)

"حجة الله البالغة" میں ہے:

والأصل في التحريم أمور:..........ومنها المصاهرة فإنه لو جرت السنة رغبة بين الناس أن يكون للأم رغبة في زوج بنتها وللرجال في حلائل الأبناء وبنات نسائهم لأفضى إلى السعي في فك ذلك الربط أو قتل من يشح به، وإن أنت تسمعت إلى قصص قدماء الفارسيين واستقرأت حال أهل زمانك من الذين لم يتقيدوا بهذه السنة الراشدة وجدت أمروا عظاما ومهالك ومظالم لا تحصى وأيضا فإن الاصطحاب في هذه القرابة لازم، والستر متعذر، والتحاسد شنيع، والحاجات من الجانبين متنازعة، فكان أمرها بمنزلة الأمهات والبنات أو بمنزلة الأختين."

(حجة الله البالغة لأحمد بن عبد الرحيم بن الشهيد وجيه الدين بن معظم بن منصور المعروف بـ «الشاه ولي الله الدهلوي» (ت ١١٧٦هـ), ج:2، ص:205، ط: دار الجيل، بيروت - لبنان)

حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :  

"مرد پر بعض اہلِ قرابت عورتوں کے حرام ہونے کی وجہ: 

1۔ سلامتِ مزاج کا یہ اقتضا ہے کہ آدمی کو اس عورت کی جانب رغبت نہ ہو جس سے وہ خود پیدا ہوا ہے، یا اس سے وہ عورت پیدا ہوئی ہے یا وہ دونوں ایسے ہیں جیسے ایک باغ کی دو شاخیں یعنی بھائی بہن۔

2۔ جب اقارب خود ایسی قرابت والی عورت سے نکاح کرلیا کرتے تو کوئی شخص عورتوں کی طرف سے ان اقارب سے حقوقِ زوجیت کا مطالبہ کرنے والا نہ ہوتا، باوجود یہ کہ عورتوں کو اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ کوئی شخص ان کی طرف سے حقوقِ زوجیت کا مطالبہ کرنے والا ہو۔ اور ایسا ارتباط جس میں یہ دونوں وصف پائے جاویں یعنی رغبت نہ ہونا اور کسی کا اس سے مطالبہ نہ کرسکنا طبعی طور پر مرد اور اس کے ماں، بہن، بیٹی، پھوپھی، خالہ، بھتیجی، بھانجی میں واقع ہوا ہے، پس یہ سب حرام ہوئیں۔

3۔ اسی طرح رضاعت بھی موجبِ حرمت ہے، کیونکہ دودھ پلانے والی عورت مثل ماں کے ہوجاتی ہے، اس لیے کہ وہ اخلاطِ بدن کے اجتماع اور اس کی صورت قائم ہونے کا سبب ہوتی ہے، پس وہ بھی فی الحقیقت ماں کے بعد ماں ہے اور دودھ پلانے والی کی اولاد بہن، بھائیوں کے بعد اس کے بہن بھائی ہیں، پس اس کا مالک ہوجانا اور اس کو اپنی زوجہ بنا لینا اور اس کے ساتھ جماع کرنا ایسی بات ہے جس سے فطرتِ سلیمہ نفرت کرتی ہے۔

4۔ اسی طرح دو بہنوں کا جمع کرنا حرام ہے کیوں کہ اس میں سوکن پنے کا حسد منجر بالعداوت ہوگا، جس سے قطع رحم ہوگا  اور یہ امر خدا تعالیٰ کو منظور نہیں ہے کہ اہلِ قرابت میں قطع رحم ہو، اور علی ہذا القیاس اس قسم کی قرابت داری، قریبی عورتوں کا آپس میں ایک شخص کے نکاح میں ہونا حرام ہوا    ، چناںچہ آں حضرت ﷺ فرماتے ہیں: 

"لا یجمع بین المرأۃ وعمتھا ولا بین المرأۃ وخالتہا."

ترجمہ:یعنی نہ ایک عورت اور اس کی پھوپھی کو جمع کرو اور نہ ایک عورت اور اس کی خالہ کو جمع کرو۔"

5۔ اسی طرح مصاہرت باعثِ حرمت ہے، اس لیے کہ اگر لوگوں میں اس قسم کا دستور جاری ہو کہ ماں کو اپنی بیٹی کے خاوند کی طرف، اور مردوں کو اپنے بیٹوں کی بیویوں کی طرف اور  اپنی بیویوں کو سوتیلے بیٹوں کی طرف رغبت ہو جو کہ حلتِ نکاح کی صورت میں محتمل ہے، تو اس تعلق کے توڑنے یا اس شخص کے قتل کرنے میں  جس کی طرف خواہش پائےکوشش کرےگا۔  

( احکام اسلام عقل کی نظر میں ، ص:159- 160، ط: مکتبہ عمر فاروق)

"رحمۃ اللہ الواسعۃ شرح حجۃ اللہ البالغہ"میں ہے:

چوتھا سبب : مصاہرت

مصاہرت: خسر داماد ہونے سے چار رشتے حرام ہوتے ہیں:

1۔ شوہر کے نسبی یا رضاعی اصول باپ، دادا، نانا عورت پر حرام ہوتے ہیں۔ عورت اصولِ شوہر کے لئے بیٹی کے مانند ہو جاتی ہے۔

2- شوہر کی نسبی یا رضاعی فروع بیٹا، پوتا، نواسا عورت پر حرام ہوتی ہیں،عورت فروع شوہر کے لئےماں کے مانند ہو جاتی ہے۔

3۔بیوی کے نسبی یا رضاعی اصول ۔ ماں، دادی، نانی شوہر پر حرام ہوتے ہیں، یہ عورتیں شوہر کے لئےماں کے مانند ہو جاتی ہیں ۔

4۔اور بیوی کی نسبی یا رضاعی فروع لڑکی لڑکے کی لڑکی لڑکی کی لڑکی شوہر پر حرام ہوتی ہیں، یہ عورتیں شوہر کے لئے بیٹی کے مانند ہو جاتی ہیں۔

پہلی تین صورتوں میں حرمت نفس عقد سے ثابت ہوتی ہے، اور آخری صورت میں بیوی سے صحبت پر موقوف رہتی ہے، اور یہ حرمت زوجین کی اصل قریب کی فروغ یا اصول بعیدہ کی صلبی فروع میں ثابت نہیں ہوتی ۔

اور حرمت مصاہرت کی دو حکمتیں ہیں :

پہلی حکمت اگر لوگوں میں یہ دستور چل پڑے کہ ماں کو اپنی بیٹی کے خاوند سے، اور مردوں کو اپنے بیٹوں کی بیویوں سے اور اپنی بیویوں کی بیٹیوں سے رغبت ہو یعنی ان سے نکاح جائز ہو تو اس کا نتیجہ یہ برآمد ہو گا کہ اس تعلق کو توڑنے کی کوشش کی جائے گی، اور جو آڑے آئے گا اس کو قتل کرنے کی کوشش کی جائے گی، اور زمین فساد سے بھر جائے گی، اگر آپ قد مائے فارس کے اس سلسلہ کے قصے سنیں یا اپنے زمانہ کی ان قوموں کے احوال کا جائزہ لیں مثلاً یورپ و امریکہ کے احوال پر نظر ڈالیں جو اس سنت راشدہ کے پابند نہیں تو آپ بھیا نک واقعات اور مہا لک و مظالم کا مشاہدہ کریں گے۔

دوسری حکمت سسرالی اور دامادی رشتہ داری میں صحبت و رفاقت لازمی چیز ہے، پردہ نہایت دشوار ہے، تحاسد و تباغض بری چیز ہے، اور جانبین سے ضرورتیں ٹکراتی ہیں یعنی کبھی ساس کو داماد سے حاجت ہوتی ہے، کبھی داماد کو ساس سے، پس حرمت مصاہرت کا معاملہ یا تو ماں بیٹے جیسا ہے یعنی علاقہ جزئیت کی بنا پر حرمت ہے یا دو بہنوں جیسا معاملہ ہے، یعنی قطع رحمی سے بچنے کے لئے حرمت ہے۔

فائدہ: پہلی علت ہی درست ہے، حرمت مصاہرت کا اصل سبب زوجین کے درمیان پیدا ہونے والا بچہ ہے، جو طرفین کا جزء ہے،دونوں کے نطفہ سے اس کا جسم بنا ہے، اور جزء کا جزء: جزء ہوتا ہے، پس بچہ کا باپ اس کی ماں کا جزء ہو گیا، اور بچہ کی ماں اس کے باپ کا جزء ہوئی، پھر یہ جزئیت دونوں کے اصول و فروع کی طرف متعدی ہوتی ہے تو بعضهم من بعض ہو گئے ، اس وجہ سے یہ حرمت زوجین کی اصل قریب یا اصل بعید کی فروع میں نہیں پائی جاتی ۔

(رحمۃ اللہ الواسعۃ شرح حجۃ اللہ البالغہ"، ج:5، ص:96-97، ط: زمزم پبلیشرز)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101142

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں