بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرمت مصاہرت سے متعلق احکام


سوال

 ( سوال 1) اگر کسی مرد اور اس کی بہن( سگی ہو یا رضاعی) اور بھانجی یا بھتیجی( سگی ہوں یا رضاعی) کے درمیان حرمت مصاہرت ثابت ہو جاۓ تو کیا مرد کے والدین یعنی ماں اور باپ کا آپس میں نکاح برقرار رہے گا یا نہیں (سوال 2) وہ آدمی جسے شہوت کے وقت انتشار ہوتا ہو یعنی صحت مند ہو اور کسی عورت کو چھو لے اور اس کے دل میں تھوڑی سی شہوت بھی پیدا ہوئی ہو لیکن شہوت اس حد تک نہ ہو کہ اس کے عضو تناسل میں انتشار ہو سکے ۔۔۔۔مطلب یہ کہ ایک صحت مند آدمی میں کچھ شہوانی جذبات پیدا ہوۓ ہوں اور وہ جلدی سے خود پر کنٹرول کر لے اور عضو خاص میں انتشار نہ ہوا ہو تو کیا حرمت مصاہرت ثابت ہو گی یا نہیں (سوال 3) اگر کسی عورت نے تنگ کپڑے پہنے ہوئے ہوں دوپٹہ بھی نہ ہو اور اس کے جسم کے حساس حصوں کے ساتھ چمٹے ہوۓ ہوں لیکن اس کی شرم گاہ برہنہ نہ دکھ رہی ہو تو کیا اس طرح عورت کو شہوت سے دیکھنے سے حرمت مصاہرت ثابت ہو گی یا نہیں (سوال 4) دو مردوں کے درمیان حرمت مصاہرت ثابت ہو سکتی ہے یا نہیں اگر ہو سکتی ہے تو کن صورتوں میں اگر نہیں تو کیوں نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ حرمت مصاہرت کی وجہ سے لڑکا اور لڑکی کے اصول( ماں، دادی، نانی)اورفروع (بیٹی، پوتی، نواسی)  ایک دوسرپرہمیشہ کےلیے  حرام ہوجاتے ہیں،   اس کے بر عکس لڑکا اور لڑکی کے اصول وفروع  کے علاوہ کسی اور رشتہ(مثلاًبہن، بھانجی، بھتیجی) میں سےکسی سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی اور لڑکا اور لڑکی کے اصول و فروع  ایک دوسرے پر حرام نہیں ہوتے ہیں۔

(1)مرد اور اس کی بہن(سگی ہو یا رضاعی)اسی طرح مرد اور اس کی بھانجی یا بھتیجی(سگی ہو یا رضاعی)کے درمیان غلط تعلقات کی بنیاد پرمذکورہ مرد( اور عورت دونوں) کےوالدین کے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑےگاتاہم اپنی محارم عورتوں کے ساتھ بد کاری میں ملوث ہونا حد درجہ گناہ کا عمل ہےاس سے باز رہنا ایمان کی سلامتی کے لیے انتہائی ضروری ہے، (2)عورت  کو چھوتے وقت  اگر آدمی کے آلۂ تناسل میں انتشار پیدا نہ ہوئی ہو یا اگر انتشار پہلے سے تھا تو چھوتے وقت اس میں زیادتی نہ ہوئی ہوتو حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، (3)عورت کے شرم گاہ کےاندرونی حصہ کے علاوہ کسی اور عضو کو شہوت کے ساتھ دیکھنے سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، (4)رشتہ مصاہرت کو اللہ تبارک وتعالی نے اپنے کلام میں بطوراحسان اور نعمت کے ذکر فرمایاہے؛کیوں کہ مصاہرت وہ رشتہ ہے جس کے ساتھ انسانی بقاء کا تعلق ہےاور انسانی بقاء مردو زن کے اختلاط سے ہوتا ہے لہذا حرمت مصاہرت  کا ثبوت دو مردوں میں نہیں ہوتا،  البتہ مردوں کا ایک دوسرے سے ملاپ انتہائی برا عمل ہے جس کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالی نے ایک قوم کو سخت سزا دی ہے۔

المحیط البرہانی میں ہے:

"والشهوة: أن تنتشر آلته إليه بالنظر إلى الفرج أو المس إذا لم يكن منتشراً قبل هذا، وإذا كان منتشراً فإن كان يزداد قوة و..... بالنظر والمسّ كان ذلك عن شهوة وما (لا) فلا، وهذا إذا كان شاباً قادراً على الجماع، وإن كان شيخاً أو عنيناً فحدُّ الشهوة أن يتحرك قلبه بالاشتهاء إن لم يكن متحركاً قبل ذلك، ويزداد الاشتهاء إن كان متحركاً فهذا هو ‌حدّ ‌الشهوة التي حكاها.... عن أصحابنا رحمهم الله."

(كتاب النكاح، ‌‌الفصل الثالث عشر في بيان أسباب التحريم، ج:٣، ص:٦٣، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

تبیین الحقائق میں ہے:

"ويشترط أن تكون ‌المرأة ‌مشتهاة قال أبو بكر محمد بن الفضل: بنت تسع سنين مشتهاة."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج:٢، ص:١٠٧، ط:دارالكتاب الاسلامی)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويشترط أن تكون ‌المرأة ‌مشتهاة، كذا في التبيين. والفتوى على أن بنت تسع محل الشهوة لا ما دونها، كذا في معراج الدراية."

(کتاب النکاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، ج:١، ص:١٧٥،ط:دار الفكر بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"فتحصل من هذا: أنه لا بد في كل منهما من سن المراهقة وأقله للأنثى تسع وللذكر اثنا عشر؛ لأن ذلك أقل مدة يمكن فيها البلوغ كما صرحوا به في باب بلوغ الغلام، وهذا يوافق ما مر من أن العلة هي الوطء الذي يكون سببا للولد أو المس الذي يكون سببا لهذا الوطء، ولا يخفى أن غير المراهق منهما لا يتأتى منه الولد."

(رد المحتار، کتاب النکاح، فصل في المحرمات، ج:3، ص:35، ط:سعید)

تبیین الحقائق میں ہے:

" وحد الشهوة أن تنتشر آلته أو تزداد انتشارا إن كانت منتشرة."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج:٢، ص:١٠٧، ط:دارالکتاب الاسلامی)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"(قال): وإذا وطئ الرجل امرأة بملك يمين أو نكاح أو فجور يحرم عليه أمها وابنتها وتحرم هي على آبائه وأبنائه."

(كتاب النكاح، ج:٤، ص:٢٠٧، ط:دارالمعرفة بيروت)

وفیہ ایضاً:

"ثم ‌حرمة ‌المصاهرة بهذه الأسباب تتعدى إلى آبائه، وإن علوا وأبنائه، وإن سفلوا من قبل الرجال والنساء جميعا، وكذلك تتعدى إلى جداتها وإلى نوافلها لما بيناأن الأجداد والجدات بمنزلة الآباء والأمهات، والنوافل بمنزلة الأولاد فيما تنبني عليه الحرمة."

(كتاب النكاح، ج:٤، ص:٢٠٨، ط:دارالمعرفة بيروت)

وفیہ ایضاً:

"أن الحرمة بسبب المصاهرة مثل الحرمة بالرضاع والنسب، وذلك كما يمنع ابتداء النكاح يمنع بقاء النكاح، فكذلك هذا يمنع بقاء النكاح كما يمنع ابتداءه."

(كتاب النكاح،ج:٤، ص:٢٠٨، ط:دارالمعرفة بيروت)

ارشاد الباری شرح صحیح بخاری میں ہے:

"(وقوله) عز وجل: {وهو الذي خلق من الماء} أي النطفة {بشرا} إنسانا{فجعله نسبا وصهرا} يريد فقسم البشر قسمين ذوي نسب أي ذكورا ينسب إليهم فيقال: فلان ابن فلان وفلانة بنت فلان، وذوات ‌صهر أي إناثا يصاهر بهن وهو كقوله: {فجعل منه الزوجين الذكر والأنثى} [القيامة: 39] {وكان ربك قديرا} [الفرقان: 54] حيث خلق من النطفة الواحدة بشرا نوعين ذكرا وأنثى، وقيل فجعله نسبا قرابة وصهرا أي مصاهرة يعني الموصلة بالنكاح من بالأنساب لأن التواصل يقع بها وبالمصاهرة لأن ‌التوالد بها يكون."

(كتاب النكاح، باب الأكفاء في الدين وقوله:وهو الذي خلق من الماء بشرا فجعله نسبا وصهرا وكان ربك قديرا، ج:8، ص:20، ط:المطبعة الكبرى الأميرية مصر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101416

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں