بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے بعد بھی بیوی شوہر کے ساتھ رہتی رہے تو تیسرے شخص کو گناہ ملے گا؟


سوال

 حرمتِ مصاہرت میں ساتویں شرط کے مطابق اگر شوہر تصدیق نہ کرے تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوتی ،تو سوال یہ ہے کہ کیا ایسی صورت میں شوہر اور  بیوی کے ساتھ رہنے سے، اس شخص کو گناہ ہوگا جس کی وجہ سے یہ معاملہ پیش آیا ہے؟ نیز شرعی گواہ کہاں سے لائے جائیں گے جب  کہ  کسی کو پتہ ہی نہیں سوائے  اس شخص کے؟

جواب

اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے اصول وفروع میں سے کسی کہ ساتھ جماع یا دواعی جماع کرلے، یا شوہر کے اصول وفروع میں سے کوئی مرد اس کی بیوی کے ساتھ جماع یا داوعی جماع کرلے، تو  ایسی صورت میں ان دونوں مرد وعورت جنہوں نے یہ فعل  (جماع یا دواعی جماع) کیا ہے، کے درمیان حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجائے گی، اور دونوں کے اصول وفروع ایک دوسرے پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائیں گے۔ تاہم جس عورت کے ساتھ یہ فعل ہوا ہے اس کے شوہر کے حق میں حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ شوہر کو اس واقعے کی سچائی کا غالب گمان ہو اور وہ اس کی تصدیق کرے، یا پھر اس واقعے کے وقوع  کی شرعی گواہان گواہی دے دیں، لہٰذا اگر شوہر کو اس واقعے کا علم نہ  ہو، یا وہ  علم ہونے کے بعد اس کی تصدیق نہ کرے اور اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے شرعی گواہان بھی نہ ہوں، تو صرف شوہر کے حق میں حرمتِ مصاہرت ثابت نہ ہوگی، یعنی شوہر اگر اس واقعے کے بعد بھی اپنی بیوی کو علیٰحدہ نہ کرے، تو  وہ گناہ گار نہیں ہوگا۔ اور  شوہر کے حق میں حرمتِ مصاہرت کے ثبوت کے لیے شوہر کی تصدیق یا شرعی شہادت،  اس وجہ سے ضروری ہے کہ اس طرح کے دعوے میں شوہر کی حق تلفی ہے، لہٰذا شریعت نے اس کے حقوق کی رعایت کرتے ہوئے یہ شرط عائد کی ہے۔

البتہ  اس صورت میں بیوی کا اپنے شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہیں، بلکہ حرام ہے؛ کیوں کہ اس کے حق  میں حرمتِ مصاہرت ثابت ہوگئی ہے، لہٰذا  بیوی کو چاہیے کہ وہ کسی طرح اپنے شوہر سے طلاق یا خلع لے کر علیٰحدہ ہوجائے، اگر بلا عذر ساتھ رہتی  رہے گی تو گناہ گار ہوگی۔ تاہم ایسی صورت میں اس تیسرے شخص کو  اس عورت کے ساتھ زنا یا دواعی زنا کرنے کا تو گناہ ملے گا، لیکن عورت کے اس فعل (اپنے شوہر کے ساتھ بلاعذر رہنے) کا گناہ اس شخص کو نہیں ملے گا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وثبوت ‌الحرمة ‌بلمسها مشروط بأن يصدقها، ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه، ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذلك. اهـ"

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ٣٣٢، ط: سعيد)

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"(سوال ٥٦١) اگر کوئی شخص اپنے باپ کی زوجہ یعنی سوتیلی ماں سے زنا کرے تو وہ عورت اس کے باپ کے واسطے حلال رہے گی یا نہیں؟

(الجواب) وہ عورت باپ کے لیے حلال نہ رہے گی کما فی ردالمحتار ... لیکن اگر ثبوت زنا کا شہادتِ شرعیہ سے نہ ہو اور باپ اس کو تسلیم نہ کرے، تو پھر باپ کے ذمہ علیحدہ کرنا اس کا لازم نہیں ہے، اور اس کے حق میں حرمت ثابت نہ ہوگی۔ فقط"

(کتاب النکاح، دوسری فصل حرمتِ نکاح بسببِ مصاہرت، ٧/ ٢٤٨، ط: دارالاشاعت)

امداد الاحکام میں ہے:

"صورتِ مسئولہ میں احقر کے نزدیک حرمتِ مصاہرت اس وقت ثابت ہوگی جب کہ عورت یہ دعویٰ بھی کرے کہ جس وقت خسر نے اس کا بوسہ لیا یا ...  اس وقت خسر کے عضوِ خاص میں انتشار پیدا ہوگیا تھا یا اگر پہلے سے انتشار تھا تو بوسہ لینے اور  ... کے وقت انتشارزیادہ ہوگیا تھا، اگر عورت یہ دعویٰ نہیں کرتی تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہ ہوگی۔ اگر وہ انتشار یا زیادتِ انتشار کا دعویٰ کرے اور شوہر کا دل قبول کرے کہ یہ سچی ہے، تو شوہر پر یہ عورت حرام ہوگئی۔ للجزئیۃ الاولیٰ۔ اور اگر وہ یہ سب دعویٰ کرے اور شوہر کا دل اس کے صدق کو قبول نہ کرے تو مرد پر عورت حرام نہیں ، مگر اس صورت میں خود عورت کو شوہر سے علیحدگی واجب ہوگی کہ اپنی خوشی سے شوہر کو اپنے اوپر قابو نہ دے؛   لأن المرأة كالقاضي لايسع لها إلا الحكم بعلمها...الخ" 

(کتاب الطلاق، فصل فی الحرمۃ المصاہرۃ، ٢/ ٨١٠، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100943

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں