بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرمت مصاہرت کی شرائط اور شک سے حرمت مصاہرت کا عدم ثبوت


سوال

1) حرمتِ مصاہرت کے ثبوت کے لیے جو شرائط ہیں ،ان میں سے کسی ایک شرط کا ہی پایا جانا کافی ہے یا پھر پوری شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے؟

2) پہلی جو شرط ہے کہ جس عورت کو چھوا گیا ہو وہ مشتہاۃ ( کم از کم 9 سال) کی ہو ،تو عورت اگر مشتہاۃ نہ ہو یعنی بہت زیادہ عمر کی ہو مثلاً 80/90 سال کی نہایت ضعیف عورت ہو، اور اس عورت کا بالغ نواسہ (زید) اس کو شہوت کے ساتھ چھوئے تو کیا اس سے بھی حرمت ثابت ہو جائے گی؟ لیکن زید کو یہ یاد نہیں کہ اس کے آلہ تناسل میں انتشار پیدا ہوا تھا بھی یا نہیں، اور اگر انتشار پیدا ہوا تھا تو لمس سے پہلے ہوا یا لمس کے بعد یہ بھی بالکل یاد نہیں ہے، کیوں کہ واقعہ بہت زیادہ پرانا ہے ،تقریباً 10-12 سال قبل کا، اور ایک بات زید کو إنزال بھی نہیں ہوا تھا اس وقت، اس مسئلہ میں حرمتِ مصاہرت ثابت ہوگئی یا نہیں؟ اور نہیں ہوئی تو زید کا اپنی خالہ زاد بہن کی لڑکی سے نکاح کرنا کیسا ہے؟

جواب

1)واضح رہے کہ مس  یعنی چھونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط ہیں سے ہر ایک کا پایا جانا ضروری ہے ،کسی ایک کے مفقود ہونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہو گی :

  •  مس بغیر حائل کے ہو یعنی درمیان میں کوئی کپڑا وغیرہ نہ ہو، یا  درمیان میں حائل اس قدر باریک ہو   کہ اس سے جسم کی حرارت پہنچتی ہو۔ وہ بال جو سر سے نیچے لٹکے ہوئے ہوئے ہیں ان کو چھونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، بلکہ صرف ان بالوں کو چھونے سے حرمت ثابت ہوگی جو سر سے ملے ہوئے ہیں ۔
  •  چھوتے وقت جانبین میں یا کسی ایک میں شہوت  پیدا ہو، مرد کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ   اس کے آلہ تناسل میں انتشار پیدا ہوجائے، اور اگر آلہ تناسل پہلے سے منتشر ہو تو اس میں اضافہ ہوجائے، اور  بیمار  اور بوڑھے  مرد جن کو انتشار نہیں ہوتا اور عورتوں کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ  دل  میں  ہیجان  کی کیفیت پیدا ہو اور دل کو لذت حاصل ہو،اور دل کا ہیجان پہلے سے ہوتو اس میں اضافہ ہوجائے۔
  •  شہوت چھونے کے ساتھ ملی ہوئی ہو ،  اگر چھوتے وقت شہوت پیدا نہ ہو، پھر بعد میں شہوت پیدا ہوتو اس کا اعتبار نہیں ہے،اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔
  • شہوت تھمنے سے پہلے انزال نہ ہوگیا ہو، اگر انزال ہوگیا تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔
  •  عورت کی عمر کم از کم نو سال اور مرد کی عمر کم ازکم بارہ سال ہو۔
  •  اگر چھونے والی عورت ہے اور وہ شہوت کا دعوی کرے  یا چھونے والا مرد ہے اور وہ شہوت کا دعوی کرےتو شوہر کو  اس خبر کے سچے ہونے کا غالب گمان ہو، اس لیے کہ اس دعوی سے شوہر کا حق باطل  ہوتاہے ،اس لیے  صرف دعوی کافی نہیں، بلکہ شوہر کو ظن غالب  حاصل ہونا  یا  شرعی گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔
  •  جس کو چھوا جارہا ہو وہ زندہ ہو۔

2)اگر واقعۃ زید نے اپنی نانی کو شہوت کے ساتھ بلا حائل چھوا تھا اور اس کا یقین ہےتو اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہو گئی ہے ،نانی کا بڑھاپا  حرمتِ مصاہرت کے ثبوت کے لیے مانع نہیں ہے،کیوں کہ   حرمتِ مصاہرت کے لیے  محلِ مشتہاۃ ہونا کافی ہے، اگر چہ وہ ماضی میں ہی کیوں نہ ہو ،لہذازید کا اپنی خالہ زاد بہن سے نکاح درست نہیں ہوگا ۔البتہ اگر زید کو شہوت(شہوت کی حد جز نمبر ایک میں موجود ہے) کے ساتھ چھونے میں محض شک ہے تو اس سے حرمت ثابت نہیں ہوگی اور زید کے لیے اپنی خالہ زاد بہن سے سے نکاح جائز ہو گا ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وحد الشهوة في الرجل أن تنتشر آلته أو تزداد انتشارا إن كانت منتشرة، كذا في التبيين. وهو الصحيح، كذا في جواهر الأخلاطي. وبه يفتى۔"

(کتاب النکاح ،باب فی بیان المحرمات،ج:1،ص:275،ط:رشیدیہ)

وفیہ ایضاً:

"وإذا جامع ميتة لا تثبت به الحرمة، كذا في فتاوى قاضي خان۔"

(کتاب النکاح ،باب فی بیان المحرمات،ج:1،ص:275،ط:رشیدیہ)

وفیہ ایضاً:

"فلو جامع صغيرة لا تشتهى لا تثبت الحرمة، كذا في البحر الرائق. ولو كبرت المرأة حتى خرجت عن حد المشتهاة يوجب الحرمة؛ لأنها دخلت تحت الحرمة فلم تخرج بالكبر ولا كذلك الصغيرة، كذا في التبيين۔"

(کتاب النکاح ،باب فی بیان المحرمات،ج:1،ص:275،ط:رشیدیہ)

وفیہ ایضاً:

"ثم لا فرق في ثبوت الحرمة بالمس بين كونه عامدا أو ناسيا أو مكرها أو مخطئا، كذا في فتح القدير. أو نائما هكذا في معراج الدراية۔"

(کتاب النکاح ،باب فی بیان المحرمات،ج:1،ص:274،ط:رشیدیہ)

وفیہ ایضاً:

"كذا في الخلاصة. ثم المس إنما يوجب حرمة المصاهرة إذا لم يكن بينهما ثوب، أما إذا كان بينهما ثوب فإن كان صفيقا لا يجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة وإن انتشرت آلته بذلك وإن كان رقيقا بحيث تصل حرارة الممسوس إلى يده تثبت، كذا في الذخيرة. وكذا لو مس أسفل الخف إلا إذا كان منعلا لا يجد لين القدم، كذا في فتاوى قاضي خان۔"

(کتاب النکاح ،باب فی بیان المحرمات،ج:1،ص:275،ط:رشیدیہ)

وفیہ ایضاً:

"قال في النهر وأقول: التعليل بعدم الاشتهاء يفيد أن من لا يشتهي لا تثبت الحرمة بجماعه ولا خفاء أن ابن تسع عار من هذا، بل لا بد أن يكون مراهقا، ثم رأيته في الخانية قال الصبي الذي يجامع مثله كالبالغ قالوا وهو أن يجامع ويشتهي، وتستحي النساء من مثله وهو ظاهر في اعتبار كونه مراهقا لا ابن تسع، ويدل عليه ما في الفتح مس المراهق كالبالغ وفي البزازية المراهق كالبالغ حتى لو جامع امرأته أو لمس بشهوة تثبت حرمة المصاهرة. اهـ.وبه ظهر أن ما عزاه الشارح إلى الفتح وإن لم يكن صريح كلامه لكنه مراده. فتحصل من هذا: أنه لا بد في كل منهما من سن المراهقة وأقله للأنثى تسع وللذكر اثنا عشر؛ لأن ذلك أقل مدة يمكن فيها البلوغ كما صرحوا به في باب بلوغ الغلام، وهذا يوافق ما مر من أن العلة هي الوطء الذي يكون سببا للولد أو المس الذي يكون سببا لهذا الوطء، ولا يخفى أن غير المراهق منهما لا يتأتى منه الولد"

(کتاب النکاح ،فصل فی المحرمات ،ج:3،ص:35،ط:سعید)

الاشباہ و النظائر میں ہے:

"‌‌القاعدة الثالثة: ‌اليقين ‌لا ‌يزول ‌بالشك ودليلها ما رواه مسلم عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعا {إذا وجد أحدكم في بطنه شيئا فأشكل عليه أخرج منه شيء أم لا فلا يخرجن من المسجد حتى يسمع صوتا، أو يجد ريحا}۔ "

(ص:48،ط:دار الکتب العلمیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102014

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں