بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرمت مصاہرت کے متعلق سوال


سوال

عورت کو مس کرنے کی صورت میں اس کے اُصول و فروع ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتے ہیں۔  یہ فرمائیے کہ اس کی حد کتنی نسلوں تک کی ہے،  صرف بیٹی اور ماں ہی حرام ہوگی  اس عورت کی مس کرنے والے مرد پر یا پھر آگے بھی یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا؟  نیز جس شخص نے معاذ اللہ زنا کیا اور نکتۂ سکون یعنی فراغت تک بھی پہنچا تو اس زانی پر زانیہ کی ماں اور بیٹی کیسے حرام ہوگئیں، جب کہ مس کرنے کی شرائط میں  یہ لکھا گیا ہے کہ اگر مرد کو اِنزال ہو جائے تو   پھر حرمتِ  مصاہرت  ثابت نہیں ہوگی، نیز  اگر  کوئی مرد اپنی ساس سے معاذ اللہ زنا کرتا ہے اور اِنزال بھی ہوتا ہے تو  میاں بیوی کے  نکاح کا کیا حکم ہوگا؟  جواب عنایت فرما کر ثوابِ دارین حاصل کریں!

جواب

۱۔صورتِ  مسئولہ میں اگر کسی عورت کو شہوت کے ساتھ چھوا اور درمیان میں کوئی حائل نہ ہو یا درمیان میں کپڑا حائل ہو لیکن وہ کپڑا اتنا باریک ہو کہ جسم حرارت محسوس ہوتی ہے تو ایسی صورت میں اس مرد پر اس عورت کے اصول یعنی ماں ، نانی ، پرنانی،وغیرہ اوپر تک اور فروع یعنی بیٹی ، نواسی وغیرہ نیچے تک سب اس مرد پر حرام ہوجائے گے ۔

۲۔صورت مسئولہ میں کسی عورت کو شہوت کے ساتھ چھونے کی صورت میں اگر انزال ہوجائے تو حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی اس لیے کہ انزال نہ ہونے کی صورت میں یہ جماع  کی طرف لے جانے والے تھے لیکن جب انزال ہوگیا تو اب یہ بات متحقق ہوگئی کہ یہ اب جماع کا سبب نہیں بنیں گے اس لیے انزال ہونے کی صورت میں حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی ۔لیکن  اگر کوئی شخص زناکرتا ہے یعنی میاں بیوی والا عمل (جسمانی تعلق ) قائم کرتا ہے تو  نفس زنا سے حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے اس لیے کہ حرمت مصاہرت کی اصل علت وہ جزئیت اور بعضیت ہے  اور یہ علت  پائی گئی ہےاس کو مس مع الانزال پر قیاس نہیں کرسکتے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ثم ‌المس إنما يوجب حرمة المصاهرة إذا لم يكن بينهما ثوب، أما إذا كان بينهما ثوب فإن كان صفيقا لا يجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة وإن انتشرت آلته بذلك وإن كان رقيقا بحيث تصل حرارة الممسوس إلى يده تثبت، كذا في الذخيرة"

 (کتاب النکاح،الباب الثالث فی بیان المحرمات جلد ۱ ص: ۲۷۵ ط: دارالفکر)

مجمع الانہر میں ہے:

"المختار أن لا تثبت بناء على أن الأمر موقوف حال المس إلى ظهور عاقبته إن ظهر أنه لم ينزل حرمت وإلا فلا كما في الفتح"

(کتاب النکاح ، باب المحرمات جلد ۱ ص: ۳۲۸ ط: المطبعة العامرۃ)

وفیہ ایضا:

"(ولو أنزل مع المس) ، أو النظر (لا تثبت الحرمة) ؛ لأنه تبين بإنزاله أنه غير داع إلى الوطء الذي هو سبب الجزئية و (هو الصحيح)"

(کتاب النکاح ، باب المحرمات جلد ۱ص:۳۲۷ ط:المطبعة العامرۃ)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"فمن زنى بامرأة حرمت عليه أمها وإن علت وابنتها وإن سفلت، وكذا تحرم المزني بها على آباء الزاني وأجداده وإن علوا وأبنائه وإن سفلوا، كذا في فتح القدير"

(کتا ب النکاح  ، القسم الثاني المحرمات بالصهریة جلد ۱ ص: ۲۷۴ ط: دارالفکر)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144403101240

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں