بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرمتِ مصاہرت کے بعد متارکت، عدت اور نفقہ کا حکم


سوال

باپ نے بیٹی سے زنا کیا،ماں باپ  کے لیے حرام ہوچکی تو ماں کہاں رہے ، اس کا نفقہ کس پر ، اور بیٹی کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے ؟ 

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر بیٹی کی عمر نو سال یا اس سے زائد ہے تو اس صورت میں باپ کا بیٹی کے ساتھ زنا کرنے سے بیٹی کی ماں اس پر حرام ہو گئی ،باپ پر لازم ہے کہ اس سے علیحدگی اختیار کرے اور زبان سے کہہ دے کہ میں نے اس کو چھوڑ دیا یا طلاق دے دی  تو نکاح ختم ہو جائے گا ،اور عدت لازم ہو گی ،اور بیوی  عدت شوہر کے گھر پر ہی گزارے گی ،عدت کے دوران نفقہ بھی شوہر پر لازم ہے ، عدت گزرنے کے بعد عورت دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔ اور ماں  باپ کو چاہیے کہ اپنی بیٹی کا نکاح جلد از جلد کہیں کرا دیں؛ تاکہ اس کی عزت نفس محفوظ رہ سکے ۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الدر  وبحرمة المصاهرة لا يرتفع النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد المتاركة وانقضاء العدة، والوطء بها لا يكون زنا

وفي الرد :(قوله: وبحرمة المصاهرة إلخ)قال في الذخيرة: ذكر محمد في نكاح الأصل أن النكاح لا يرتفع بحرمة المصاهرة والرضاع بل يفسد حتى لو وطئها الزوج قبل التفريق لا يجب عليه الحد اشتبه عليه أو لم يشتبه عليه. اهـ.(قوله: إلا بعد المتاركة) أي، وإن مضى عليها سنون كما في البزازية، وعبارة الحاوي إلا بعد تفريق القاضي أو بعد المتاركة. اهـ.وقد علمت أن النكاح لا يرتفع بل يفسد وقد صرحوا في النكاح الفاسد بأن المتاركة لا تتحقق إلا بالقول، إن كانت مدخولا بها كتركتك أو خليت سبيلك، وأما غير المدخول بها فقيل تكون بالقول وبالترك على قصد عدم العود إليها.وقيل: لا تكون إلا بالقول فيهما، حتى لو تركها، ومضى على عدتها سنون لم يكن لها أن تتزوج بآخر فافهم."

(کتاب النکاح ،فصل فی المحرمات ،ج:3،ص:37،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"كفرقة، أو متاركة لأن عدة هؤلاء لتعرف براءة الرحم وهو بالحيض، ولم يكتف بحيضة احتياطا 

وفی الرد (قوله: لأن عدة هؤلاء إلخ) جواب سؤال حاصله لم كانت عدة هؤلاء بالحيض ولم يعتبروا فيهن عدة وفاة ط (قوله: لتعرف براءة الرحم) أي لأجل أن يعرف أن الرحم غير مشغول لا لقضاء حق النكاح إذ لا نكاح صحيح والحيض هو المعرف (قوله: ولم يكتف بحيضة) كالاستبراء لأن الفاسد ملحق بالصحيح احتياطا منح."

(کتاب الطلا ق،باب العدۃ،ج:3،ص:518،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"قال في البحر: فالحاصل أن الفرقة إما من قبله أو من قبلها، فلو من قبله فلها النفقة مطلقا سواء كانت بمعصية أو لا طلاقا أو فسخا، وإن كانت من قبلها فإن كانت بمعصية فلا نفقة لها ولها السكنى في جميع الصور. اهـ ملخصا."

(کتاب الطلاق ،باب النفقہ ،ج:3،ص:609،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100443

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں