بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 ذو القعدة 1445ھ 19 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کو چھونے کے بعد انزال سے حرمتِ مصاہرت کا حکم


سوال

درج ذیل مسائل کے بارے مین راہ نمائی فرمائیں۔

1۔ اگر کوئی شخص کسی عورت کو شہوت کے ساتھ ہاتھ لگائےیا گلے لگائے یا گلے لگاتے ہی انزال بھی ہو جائے   لیکن اس میں برہنہ کچھ نہ  کیا ہو تو  کیا اس عورت کے بچوں کے ساتھ اس مرد کی شادی ہو سکتی ہے ؟ یا اس عورت کے بچوں کے ساتھ اس مرد کے بچوں کی شادی ہو سکتی ہے ؟

2۔  اگر کوئی شخص ایک  ایسی عورت  جو  رشتہ دار ہو(  چچا کی بیٹی یا مامو ں کی بیٹی یا بھابھی وغیرہ) کو  شہوت کے ساتھ ہاتھ لگائےیا گلے لگائےیا گلے لگاتے ہی انزال ہوجائےتو  کیا  ان عورتوں کے بچوں کے ساتھ اس مرد کی شادی ہو سکتی ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ حرمتِ مصاہرت  جس طرح نکاح سے ثابت ہوجاتی ہے اسی طرح زنا  اور شرائط معتبرہ کے ساتھ دواعی زنا( شہوت کے ساتھ چھونے اور دیکھنے)  سے بھی ثابت ہوجاتی ہے،مس  یعنی چھونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ شہوت ختم ہونے سے پہلے انزال نہ ہوگیا ہو، اگر انزال ہوگیا تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص کسی عورت کو ہاتھ لگائے یا گلے لگائے اور شہوت ختم ہونے پہلے انزال بھی ہوجائے تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، یعنی مرد اور  عورت دونوں پر ایک دوسرے  کے اصول(ماں، باپ ، دادا، دادی ، نانا، نانی ) وفروع(بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسا، نواسی) حرام نہیں ہوں گے، تاہم عورت کے رشتہ دار ہونے یا نہ ہونے سے حرمتِ مصاہرت کے حکم میں فرق نہیں آتا۔

المبسوط للسرخسی  میں ہے:

"(قال): وإذا وطئ الرجل امرأة بملك يمين أو نكاح أو فجور يحرم عليه أمها وابنتها وتحرم هي على آبائه وأبنائه."

(كتاب النكاح، ج:4، ص:207، ط:دارالمعرفة)

وفیہ ایضاً:

"ثم ‌حرمة ‌المصاهرة بهذه الأسباب تتعدى إلى آبائه، وإن علوا وأبنائه، وإن سفلوا من قبل الرجال والنساء جميعا، وكذلك تتعدى إلى جداتها وإلى نوافلها لما بيناأن الأجداد والجدات بمنزلة الآباء والأمهات، والنوافل بمنزلة الأولاد فيما تنبني عليه الحرمة."

(كتاب النكاح، ج:4، ص:208، ط:دارالمعرفة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) حرم أيضا بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا الوطء الحرام (و) أصل (ممسوسته بشهوة) ولو لشعر على الرأس بحائل لا يمنع الحرارة (وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه (وفروعهن) مطلقا والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قلبه أو زيادته وفي الجوهرة: لا يشترط في النظر لفرج تحريك آلته به يفتى هذا إذا لم ينزل فلو أنزل مع مس أو نظر فلا حرمة به يفتي ابن كمال وغيره.

قوله (فلا حرمة)لأنه بالإنزال تبين أنه غير مفض إلى الوطء،قال في العناية:ومعنى قولهم:إنه لا يوجب الحرمة بالإنزال،أن الحرمة عند إبتداء المس بشهوة كان حكما موقوفا إلى إن تبين بالإنزال،فإن أنزل لم يثبت وإلا ثبت لا أنها تثبت بالمس ثم بالإنزال تسقط؛ لأن حرمة المصاهرة إذا ثبتت لا تسقط أبدا."

(كتاب النكاح،فصل في المحرمات،ج:3،ص: 32، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ثم لا فرق في ثبوت الحرمة بالمس بين كونه عامدا أو ناسيا أو مكرها أو مخطئا، كذا في فتح القدير. أو نائما هكذا في معراج الدراية."

(کتاب النکاح ،باب فی بیان المحرمات،ج:1، ص:274، ط:رشیدیہ)

تبیین الحقائق میں ہے:

" وحد الشهوة أن تنتشر آلته أو تزداد انتشارا إن كانت منتشرة."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج:2، ص:107، ط:دارالکتاب الاسلامی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505101269

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں