بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرمت مصاہرت کی صورت میں میراث کا حکم


سوال

میرے والد صاحب نے دو شادیاں کی ،پہلی بیوی سے چار بیٹے ہیں،اور پہلے بیوی کا انتقال والد صاحب کی زندگی میں ہو گیاتھا،اس کے بعد والد صاحب نے ایک اور نکاح کیا ، میرے والد  کا انتقال 2 فروری 2023ء کو ہوا ،مسئلہ یہ ہے کہ  میرے والد صاحب کی   اس دوسری بیوی سےمیرے بڑے بھائی کے ناجائز تعلقات ثابت ہوچکےتھے،اس کا علم جب والد صاحب کو ہوا،تو انہوں نے اس سے پوچھا ،تو اس خاتون نے اس کی تصدیق کی ،والد صاحب نےکہیں سے فتوی لیا،کہ یہ عورت ہمیشہ کے لیے ان کے اوپر  حرام ہو چکی ہے،یہ واقعہ 2017ء کو پیش آیا،اب وہ فتویٰ ہمارے پاس موجود نہیں ،پھر والد صاحب نےاس کو اپنے ماں باپ کے گھر بھیج دیا،اور پھر چار ماہ بعد والد صاحب دوبارہ اس عورت کوگھر واپس لائے،لیکن اس دوران والد صاحب نے نہ اس کو  طلاق دی ہے،اور نہ ہی چھوڑ دینے کے الفاظ استعمال کیے ۔

1۔ کیاا س عورت کا والدکی میراث میں حصہ ہے  ؟

2۔ مذکورہ خاتون سےوالدصاحب کے نکاح کے وقت مہرمیں دس تولہ سونا طے ہوا ،لیکن والدصاحب نے اس کو سونا نہیں دیا،بلکہ ایک مکان اس سونے کےعوض مہر میں دیا  ،اور وہ مکان ان کے قبضے میں ہے،اب یہ خاتون مزید دس تولہ سونا جو مہر میں مقرر ہوا کا مطالبہ کررہی ہے،تو کیا اب اس عورت کو مزید مہر کے مطالبے کا حق ہے  ؟

3۔ ان کی  اولاد کامیراث میں کتنا حصہ ہوگا؟ 

4۔ مذکورہ عورت ہمارے گھر میں عدت گزار رہی ہے،اس کا کیاحکم ہے؟عدت کے بعد اس کو ہم گھر سے جانے کا بول سکتے ہیں؟

5۔ ہمارا ایک بھائی ابنارمل ہے،یعنی اس کی دماغی حالت کمزور  ہے،مذکورہ عورت نے اس بھائی پر الزام لگایا ہے  کہ اس نے میرے ساتھ زبردستی  کرنے کی کوشش  کی ہے،اور اس بھائی کا کہنا ہے کہ اس عورت نےجو کہ رشتے میں اس کی سوتیلی ماں ہے، مجھے اپنے ساتھ غلط حرکت کرنے پر مجبور کیا،اور میرے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی،اور مجھے چھوا بھی ،میں نےانکار کیا،تو اس نے کہا کہ میں سب کو بتا دو ں گی کہ تم نے میرے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی،تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں مرحوم پرمذکورہ خاتون بسببِ حرمت ِمصاہرت ہمیشہ کے لیے حرام ہو چکی تھی ،لیکن مرحوم نےمذکورہ خاتون کو اپنے نکاح سے نکالنےکے لیےنہ طلاق کے الفاظ استعمال کیے،اور نہ ہی چھوڑنے کےالفاظ استعمال کیے،لہذامذکورہ خاتون مرحوم کی   وفات تک مرحوم کی نکاح  میں رہی ، اور اب اس عورت کو مرحوم کے ترکہ(میراث) میں شرعی حصہ  ملے گا۔

2۔ اگر مذکورہ خاتون نےباہمی رضا مندی سے 10 تولےسونے  مہرکے عوض مکان کو قبول کر لیا تھا،تو یہ مکان مرحوم شوہر کی طرف سے بطور مہر ہی شمار کیا جائے گا،اس صورت میں  خاتون دس تولہ مہر کا مطالبہ نہیں کر سکتی ۔

3۔ مذکورہ خاتون کی اولاد بھی باقی تمام اولاد(یعنی پہلے بیوی کی اولاد) کی طرح مرحوم کے ترکہ میں حصہ دار ہے۔

4۔ مذکورہ خاتون چوں کہ مرحوم کے انتقال تک اس کے نکاح میں تھی ،لہذا  عدت بھی مرحوم کے گھر میں مکمل کرے گی، اور عدت کےمکمل ہونے کے بعد اس عورت کا اس گھر میں اپنے حصے کی حدتک حق رہےگا۔

5۔مذکورہ عورت چوں کہ پہلے سے اپنے شوہر پر حرمت مصاہرت کے ساتھ حرام ہو چکی ہے،اور شوہر بھی انتقال کر چکا ہے،لہذا  جب پہلے سے حرمت مصاہرت ثابت ہو چکی ہے،تو اب اس بارے میں مزید حکم کی ضرورت نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وبحرمة المصاهرة إلخ) قال في الذخيرة: ذكر محمد في نكاح الأصل ‌أن ‌النكاح ‌لا ‌يرتفع ‌بحرمة المصاهرة والرضاع بل يفسد حتى لو وطئها الزوج قبل التفريق لا يجب عليه الحد اشتبه عليه أو لم يشتبه عليه. اهـ .(قوله: إلا بعد المتاركة) أي، وإن مضى عليها سنون كما في البزازية، وعبارة الحاوي إلا بعد تفريق القاضي أو بعد المتاركة. اهـ.وقد علمت أن النكاح لا يرتفع بل يفسد وقد صرحوا في النكاح الفاسد بأن المتاركة لا تتحقق إلا بالقول، إن كانت مدخولا بها كتركتك أو خليت سبيلك، وأما غير المدخول بها فقيل تكون بالقول وبالترك على قصد عدم العود إليها.وقيل: لا تكون إلا بالقول فيهما، حتى لو تركها، ومضى على عدتها سنون لم يكن لها أن تتزوج بآخر فافهم."

(کتاب النکاح، فصل في المحرمات، فروع طلق امرأته تطليقتين ولها منه لبن فاعتدت ...،ج: 3 ص: 37 ط: سعید)

وفیہ أیضاً:

"(‌وجاز) (‌التصرف ‌في ‌الثمن) بهبة أو بيع أو غيرهما لو عينا أي مشارا إليه ولو دينا فالتصرف فيه تمليك ممن عليه الدين ولو بعوض ولا يجوز من غيره ابن مالك (قبل قبضه) سواء (تعين بالتعيين)كمكيل (أو لا) كنقود فلو باع إبلا بدراهم أو بكر بر جاز أخذ بدلهما شيئا آخر (وكذا الحكم في كل دين قبل قبضه كمهر وأجرة وضمان متلف) وبدل خلع وعتق بمال وموروث وموصى به."

(کتاب البیوع، فصل في التصرف في المبيع والثمن قبل ....، مطلب في بيان الثمن والمبيع والدين، ج: 5 ص: 152،153 ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وروي عن رسول اللہ صلی اللہ  علیه وسلم، أنہ قال من کشف خمار امرأته ونظر إلیها وجب الصداق دخل بها، أو لم یدخل وهذا نص في الباب وروي عن زرارة بن أبي أوفى أنه قال: قضى الخلفاء الراشدون المهديون أنه إذا أرخى الستور وأغلق الباب فلها الصداق كاملا وعليها العدة دخل بها أو لم يدخل بها، وحكى الطحاوي في هذه المسألة إجماع الصحابة من الخلفاء الراشدين وغيرهم؛ ولأن المهر قد وجب بنفس العقد إما في نكاح فيه تسمية فلا شك فيه."

( کتاب النکاح، فصل و أما بیان مایتأکد به المهر، ج: 2 ص: 292 ط: دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102057

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں