بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حُرَین نام رکھنا


سوال

"حرین"  نام رکھنا کیسا ہے؟

جواب

عام طور پر   جو معروف  نام "حُرَین"  لڑکیوں کا   رکھا جاتا ہے، اس کا  درست   تلفظ یہ ہے: "حورین"  ،  یہ نام رکھنا مناسب نہیں؛  کیوں کہ  ’’حُوْرین‘‘ (’ح‘ کے ضمہ کے ساتھ) لفظ ’’حُوْر‘‘  کی تثنیہ یا جمع ہوسکتا ہے، اور لفظِ ’’حُوْر‘‘ میں تین احتمال ہیں:

  1- ’’أَحْوَر‘‘ (مذکر صفت) کی جمع ہو۔ اس اعتبار سے یہ نام رکھنا درست نہیں۔

2- ’’حَوْرَاء‘‘ (مؤنث صفت کی جمع ہو)، اس اعتبار سے اس کا معنیٰ ہیں: سفید رنگت والی عورتیں،  ’’حور‘‘ جنت کی عورتوں  کو کہتے ہیں۔ لیکن ’’حُوْر‘‘ مفرد نہیں، بلکہ جمع ہے۔ ان دونوں احتمالات (’’أَحْوَر‘‘کی جمع ہو یا ’’حَوْرَاء‘‘  کی) کے اعتبار سے ’’حُوْر‘‘ کی تثنیہ یا جمع ’’حُوْرین‘‘ درست نہیں ہے۔

3- ’’حُوْر‘‘ (مفرد اسم) ہو، اس کا معنیٰ ہے: نقصان، اور ہلاکت۔ 

خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ نام رکھنا مناسب نہیں ہے، اس کے بجائے بچی کا نام صحابیات مکرمات رضی اللہ عنہن کے ناموں میں سے کسی نام پر رکھنا چاہیے۔

اور اگر "حُرَین" نام ہی سے متعلق سوال ہے تو یہ  نام  لڑکوں کا رکھا جانا عرب میں معروف ہے، اس کا معنیٰ سواری کا تھک کر رک جانا ہے۔

تاج العروس من جواهر القاموس (34/ 408):

"( و ) حرين ، ( كزبير : اسم ) رجل."

معجم متن اللغة (2/ 75):

"ح ر ن

تلتصق بالخلية حتى تنزع: ما يموت من النحل في عسله (ز): حبات القطن. ومن أسمائهم: حرين."

جمهرة اللغة لابن دريد (6/ 100):

"ح-ر-ن

حَرَنَ الدابةُ وحَرُنَ يحرُن حِراناً وحُراناً، وهو حَرون كما ترى، وهو الذي إذا استُمرَّ جَرْيُه وقف فلم يتحرك."

مختار الصحاح (ص: 167):

"[ حرن ] ح ر ن : فرس حَرُونٌ لا ينقاد وإذا اشتد به الجري وقف."

العين للخليل بن أحمد (1/ 213، بترقيم الشاملة آليا):

"حرن:

حَرَنَتِ الدّابَّة، وحَرُنَتْ لغة، فهي تَحْرُن حِراناً، وهي حَرُونٌ.

وفي الحديث: " ما خَلَأَت ولا حَرَنَت ولكن حَبَسَها حابِسُ الفيل."

ويقال: فَرَسٌ حَرونٌ من خَيْلٍ حُرُنٍ. والحَرون: اسم فَرَسٍ كان لباهلة إليه تُنسَب الخيل الحَرونيّة.

"(اسم) حُورٌ: جمع حَوراء حور: (اسم) الحُورُ : النَّقص والهلاكُ إنه في حُورٍ وبُورٍ : في غير صَنْعة ولا إجادة ، أَو في ضَلالٍ والباطلُ في حُور: في نقْص وتراجُعٍ الحُورُ: جمع حَوْراء نساء الجنّة حُوْر: (اسم) حُوْر : جمع أَحْوَر".

تفسير الطبري = جامع البيان ط هجر (22/ 263):

"القول في تأويل قوله تعالى: {حور مقصورات في الخيام فبأي آلاء ربكما تكذبان لم يطمثهن إنس قبلهم ولا جان فبأي آلاء ربكما تكذبان} [الرحمن: 73] يقول تعالى ذكره مخبرًا عن هؤلاء الخيرات الحسان {حور} [الرحمن: 72] يعني بقول حور: بيض، وهي جمع حوراء، والحوراء: البيضاء وقد بينا معنى الحور فيما مضى بشواهده المغنية عن إعادتها في هذا الموضع. وبنحو الذي قلنا في ذلك قال أهل التأويل".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201497

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں