بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حقوق زوجیت ادا نہ کرنے کا حکم


سوال

اوپر پوچھے گئے سوال سے ملحقہ ہے (جو میاں اپنی بیو ی سے 20سے 30 سال تک ایک دوسرے سے دور رہے ہوں اور میاں نہ طلاق دے نہ ہی رکھے تو) ایسے خاوند کو کیسے الله کا ڈر دے کر اسے طلاق پر قائل کیا جائے؟ وہ خاوند نماز روزےکا بھی پابند نہیں ، کبھی نماز نہیں پڑھی ، روزے نہیں رکھتا ، اسکی بیوی 20سالوں سے اس کے ساتھ بھی نہیں رہتی۔

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ  مطہرہ نے شوہروں کو اپنی بیویوں  کے  ساتھ حُسنِ سلوک و حُسنِ معاشرت کا پابند کیا ہے، جس میں اُن کے  ساتھ اچھا برتاؤ کرنا، اُن کا حق بغیر ٹال مٹول کے ادا کرنا،اُن کے  نان نفقہ کا انتظام کرنا، اُن کی جنسی خواہش کی تسکین فراہم کرنا اوراُنہیں مارنےاورگالم گلوچ کرنے سےاحترازکرناسب داخل ہے ، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ :" تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل وعیال (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے  اہل کے حق میں تم میں بہترین ہوں"،لہٰذا مذکورہ خاتون کے شوہر پر لازم ہےکہ وہ اپنی بیوی کے حقوق اداکرے، اُس کے نان نفقہ کا انتظام کرے، اگر وہ اپنی بیوی کے حقوق بھی ادا نہیں کرتا اور طلاق یا خلع بھی نہیں دیتا تو ایسی صورت میں وہ سخت گناہ گار ہوگا، اور آخرت میں سخت عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا ، جانبین کے خاندان کےبڑوں اور خیر خواہوں کو بھی چاہیے کہ شوہر کو سمجھانےاورراہِ راست پر لانےکی کوشش کریں، اس کے بعد بھی اگر وہ اپنی عادت سے باز نہیں آتا اور اپنی بیوی (سائلہ) کے حقوق ادا کرنے اوراُس کے نان نفقہ کا انتظام کرنے لیے تیار نہیں ہوتا تو ایسی صورت میں  سائلہ اپنے شوہرسےطلاق یاخلع کامطالبہ کرسکتی ہے،اگر شوہر طلاق یا خلع دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو بیوی شوہر کے نان نفقہ اور حقوقِ زوجیت ادا نہ کرنے کی بناء پر عدالت میں تنسیخِ نکاح کا مقدمہ بھی دائر کرسکتی ہے جس کا طریقۂ کار بوقتِ ضرورت دارالافتاء سے طلب کیا جاسکتا ہے۔

 ارشادِ باری تعالٰی ہے:

" وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا ." (النساء: 19)

ترجمہ: "اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی  کے  ساتھ گزران کرو،  اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو  ممکن ہے  کہ تم ایک شے   کو ناپسند کرو  اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر  کوئی  بڑی منفعت رکھ دے۔"(ازبیان القرآن)

 حدیثِ مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، وخياركم خياركم لنسائهم . رواه الترمذي."

(مشکاة المصابیح، 2/282، باب عشرة النساء، ط: قدیمي)

ترجمہ:"رسولِ کریم ﷺ نے  فرمایا: مؤمنین میں سے  کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو ان میں سے بہت زیادہ خوش اخلاق ہو،  اور تم  میں بہتر وہ شخص ہے جو  اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے۔"

(مظاہر حق، 3/370، ط:  دارالاشاعت)

ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي."

(مشکاة المصابیح، 2/281، باب عشرة النساء، ط: قدیمي)

ترجمہ:"رسولِ کریم ﷺ نے فر مایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے  اہل کے حق میں تم میں  بہترین ہوں۔"

(مظاہر حق، 3/365، ط:  دارالاشاعت)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"المعاشرة بالمعروف من كف الأذى وإيفاء الحقوق وحسن المعاملة: وهو أمر مندوب إليه، لقوله تعالى:  "وعاشروهن بالمعروف "ولقوله صلّى الله عليه وسلم: "خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي"   وقوله:"استوصوا بالنساء خيراً"والمرأة أيضاً مندوبة إلى المعاشرة الجميلة مع زوجها بالإحسان، واللطف في الكلام، والقول المعروف الذي يطيب به نفس الزوج.ومن العشرة بالمعروف: بذل الحق من غير مطل، لقوله صلّى الله عليه وسلم: "مَطْل الغني ظلم".ومن العشرة الطيبة: ألا يجمع بين امرأتين في مسكن إلا برضاهما؛ لأنه ليس من العشرة بالمعروف، ولأنه يؤدي إلى الخصومة. ومنها ألا يطأ إحداهما بحضرة الأخرى؛ لأنه دناءة وسوء عشرة. ومنها ألا يستمتع بها إلا بالمعروف، فإن كانت نِضْو الخلق (هزيلة) ولم تحتمل الوطء، لم يجز وطؤها لما فيه من الإضرار.

حكم الاستمتاع أو هل الوطء واجب؟ قال الحنفية: للزوجة أن تطالب زوجها بالوطء؛ لأن حله لها حقها، كما أن حلها له حقه، وإذا طالبته يجب على الزوج."

(البَاب الأوَّل: الزّواج وآثاره، 9 /6598 -6599، ط: دار الفكر)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"وفي القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما، فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع."

(كتاب الطلاق، باب الخلع، 441/3، ط: سعید)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وأما إذا تشاقق الزوجان، ولم تقم المرأة بحقوق الرجل وأبغضته ولم تقدر على معاشرته، فلها أن تفتدي منه بما أعطاها، ولا حرج عليها في بذلها له، ولا حرج عليه في قبول ذلك منها، ولهٰذا قال تعالى:(وَلا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً إِلَّا أَنْ يَخافا أَلَّا يُقِيما حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيما حُدُودَ اللَّهِ فَلا جُناحَ عَلَيْهِما فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ)الآية."

(البقرة: 229، 461/1، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102142

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں