بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حقوق معاف کرنے کی شرط پر شادی کرنے کا حکم


سوال

کیا میں دوسرا نکاح اس شرط کے ساتھ کر سکتا ہوں کہ تم اپنے برابری کے حقوق چھوڑ دو، نان نفقہ کے اعتبار سے کسی قسم کی کوئی کمی نہیں ہوگی، بس برابری نہیں کر سکوں گا؟

جواب

واضح رہے کہ ایک سے زائد بیویاں ہوں تو ان کے درمیان رات گزارنے میں اور خرچہ ونان نفقہ دینے میں برابری کا معاملہ کرنا شوہر پر واجب ہے،  پہلی اور دوسری بیوی حقوق میں برابر ہیں، اور مساوات شب باشی (یعنی صرف رات گزارنے) میں واجب ہے، جماع میں برابری شرط نہیں  ، نیز  رہائش میں بھی بالکل برابری اور یک سانیت کا معاملہ کرنا شوہر پر لازم اور ضروری ہے، دونوں کو الگ الگ کمرہ دینا (جس میں رہائش کے علاوہ دیگر ضروریات، کچن، غسل خانہ اور بیت الخلا موجود ہو) لازم ہے، چھٹیوں کے ایام کی بھی تقسیم کرنی چاہیے، اور اگر ان چیزوں میں کسی ایک کے ساتھ جھکاؤ کا معاملہ کرے گا تو شوہر ظالم شمار ہوگا، اللہ کے یہاں اس کی پکڑ ہوگی۔

حقوق معاف کروانے کی شرط کے ساتھ  نکاح کرنا مناسب نہیں ہے۔ نیز اگر کسی ایک بیوی نے اپنے حقوق معاف کرنے کے بعد حقوق کا مطالبہ دوبارہ کرلیا تو شوہر کے ذمے اس کے حقوق ادا کرنا ضروری ہوگا؛ کیوں کہ بیوی کو شرعًا یہ حق حاصل ہے کہ وہ  معاف کیے ہوئے حقوق کا دوبارہ مطالبہ کرلے،  اس لیے اگر آپ دوسری شادی کے لیے جسمانی اور مالی طاقت رکھتے ہیں اور دوسری شادی کے بعد دونوں بیویوں کے حقوق خوش اسلوبی سے برابری کے ساتھ ادا کرسکتے ہیں تو آپ کے لیے دوسری شادی کرنے کی اجازت ہے اوراگر دوسری شادی کے لیے آ پ کے پاس مالی یا جسمانی طاقت نہیں یا دوسری شادی کے بعد بیویوں میں برابری نہ کرسکیں گے تو آپ کے لیے دوسری شادی کرنا جائز نہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض، نهر (أن يعدل) أي أن لايجور  (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب. ويسقط حقها بمرة ويجب ديانةً أحيانًا. ولايبلغ الإيلاء إلا برضاها، ويؤمر المتعبد بصحبتها أحيانًا، وقدره الطحاوي بيوم وليلة من كل أربع لحرة، وسبع لأمة، ولو تضررت من كثرة لم تجز الزيادة على قدر طاقتها، والرأي في تعيين المقدار للقاضي بما يظن طاقتها، نهر بحثًا.

(قوله: لا في المجامعة)؛ لأنها تبتني على النشاط، ولا خلاف فيه. قال بعض أهل العلم: إن تركه لعدم الداعية والانتشار عذر، وإن تركه مع الداعية إليه لكن داعيته إلى الضرة أقوى فهو مما يدخل تحت قدرته ... (قوله: بل يستحب) أي ما ذكر من المجامعة ح. أما المحبة فهي ميل القلب وهو لايملك. قال في الفتح: والمستحب أن يسوي بينهن في جميع الاستمتاعات من الوطء والقبلة ...  (قوله: ويسقط حقها بمرة) قال في الفتح: واعلم أن ترك جماعها مطلقًا لايحل له، صرح أصحابنا بأن جماعها أحيانًا واجب ديانة، لكن لايدخل تحت القضاء والإلزام إلا الوطأة الأولى، ولم يقدروا فيه مدةً. قال في البحر: وحيث علم أن الوطء لايدخل تحت القسم، فهل هو واجب للزوجة؟ وفي البدائع: لها أن تطالبه بالوطء؛لأن حله لها حقها، كما أن حلها له حقه، وإذا طالبته يجب عليه ويجبر عليه في الحكم مرةً، والزيادة تجب ديانةً لا في الحكم عند بعض أصحابنا، وعند بعضهم تجب عليه في الحكم". 

(باب القسم 3/201، 202، ط: سعيد) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107201125

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں