میری شادی کو دو سال گزر چکے ہیں، اب تک میرا اور میرے شوہر کا ازدواجی تعلق نہیں بن پایا ہے، میرا شوہر مجھے حق زوجیت تاحال نہیں دے پایا ہے، اب اس کی وجہ ان پر کروڑوں کا قرضہ ہے، یا کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے، یہ مجھے نہیں بتاتے، اور نہ ہی اپنا علاج کرواتے ہیں، میں ڈیڑھ سال سے ان کے آگے پیچھے بھیک مانگ چکی ہوں کہ اپنا علاج کروالیں، مالی لحاظ سے بھی مدد کرچکی ہوں، کوئی فائدہ نہیں ہوا، لہذا میں اب اپنی شوہر سے خلع لینا چاہتی ہوں، برائے کرم اس کا شرعی طریقہ بتادیں۔
بصدقِ واقعہ سائلہ کا شوہر اگر حقوق زوجیت ادا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے، اور اپنا علاج کروانے بھی تیار نہیں ہے، تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنی بیوی کو ایک طلاق دے کر اپنے نکاح سے آزاد کردے، پس اگر وہ طلاق دینے پر راضی نہ ہو تو اس صورت میں سائلہ اپنے مہر کے عوض اس سے خلع کا مطالبہ کرے، جسے اس کا شوہر قبول کرلے، طلاق یا خلع کے بعد کسی اور شخص سے نکاح کرنے سے قبل سائلہ پر عدت مکمل تین ماہواریاں گزارنا لازم ہوگا۔
فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:
" في الملخص و الايضاح: الخلع عقد يفتقر إلى الإيجاب والقبول يثبت الفرقة ويستحق عليها العوض."
( كتاب الطلاق، الفصل السادس العشر في الخلع، ٣ / ٢٨، ط: دار الكتب العلمية )
فتاوی ہندیہ میں ہے:
" إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية.
إن كان النشوز من قبل الزوج فلا يحل له أخذ شيء من العوض على الخلع وهذا حكم الديانة فإن أخذ جاز ذلك في الحكم ولزم حتى لا تملك استرداده كذا في البدائع.
وإن كان النشوز من قبلها كرهنا له أن يأخذ أكثر مما أعطاها من المهر ولكن مع هذا يجوز أخذ الزيادة في القضاء كذا في غاية البيان."
( كتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع وما في حكمه، الفصل الأول في شرائط الخلع وحكمه وما يتعلق به، ١ /٤٨٨، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144311100137
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن