بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حقوقِ طباعت مکتبہ کو فروخت کرنے کے بعد تبدیلی کرکے دوسرے مکتبہ کو بیچنے کا حکم


سوال

 کوئی شخص کسی مکتبہ کے لیے ایک کتاب، یا ایک شرح، یا ایک ترجمہ لکھے، پھر اس کے ساتھ اس کتاب، یا شرح، یا ترجمہ کے حوالے سے یہ خط لکھے :(کہ یہ کتاب، یا شرح، یا ترجمہ میں آپ کو اتنےروپے یا افغانی کی بدلہ میں دیا ہے) اور اس کے ساتھ دستخط بھی کرلے ، پھر یہ مؤلف یا شارح یا مترجم اس کتاب، یا شرح، یا ترجمہ میں کچھ تبدیلیاں اور تغیرات کرکے، مثلاً: اس کے فونٹ میں تبدیلی کرے، عبارات پر بارڈر باندھے، سوالات اور جوابات میں کچھ زیادت و نقصان کرے، پھر یہ کتاب، یا شرح، یا ترجمے کے حقوق دوسرے مکتبہ والے کو بیچے اور اس کے ساتھ بھی دستخط کرے؛ تو کیا شریعت کی نگاہ سے مذکورہ بالا تمام تغیرات وتبدیلیاں کرنے کے بعد  دوسرے مکتبہ کو بیچنا جائز ہے، یا نہیں؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کتاب کامسوّدہ بیچ کر اس کے حقوق مکتبہ کو دیتا ہے، تو یہ درست ہے ، نیز اگر مذکورہ شخص کا پہلے مکتبہ کے ساتھ معاہدہ ہوا ہے کہ آگے کسی کو فروخت نہیں کرے گا ، تو اس صورت میں مذکورہ شخص کا دوسرے کسی مکتبہ کو بیچنا جائز نہیں ہے ؛ کیوں کہ یہ پہلے والے مکتبہ کے ساتھ دھوکہ اور خیانت ہے ، نیز اس سے اس کو کاروباری نقصان بھی ہوگا ، اور شریعت کی تعلیمات یہ ہیں کہ کسی کا نقصان نہ کیا جائے۔

"سنن الترمذي" میں ہے:

"حدثنا كثير بن عبد الله بن عمرو بن عوف المزني ، عن أبيه ، عن جده أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: الصلح ‌جائز بين المسلمين، إلا صلحا حرم حلالا أو أحل حراما، والمسلمون على شروطهم، إلا شرطا حرم حلالا أو أحل حراما."

 (‌‌أبواب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب ما ذكر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصلح بين الناس، رقم الحدیث:1352، ج:3، ص:27، ط:دار الغرب الإسلامي بيروت)

"السنن الكبرى للبيهقي" میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ‌لا ‌ضرر ‌ولا ‌ضرار، من ضار ضره الله، ومن شاق شق الله عليه."

(‌‌كتاب الصلح، ‌‌باب لا ضرر ولا ضرار، رقم الحديث:11384، ج:6، ص:114، ط:دار الكتب العلمية)

"مسند الإمام أحمد بن حنبل"میں ہے:

"حدثنا وكيع قال: سمعت الأعمش قال: حدثت عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب."

(‌‌تتمة مسند الأنصار، ‌‌حديث أبي أمامة الباهلي، رقم الحدیث:22170، ج:36، ص:504، ط:مؤسسة الرسالة)

"صحيح الإمام مسلم"میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام فأدخل يده فيها، فنالت أصابعه بللا، فقال: ما هذا يا صاحب الطعام؟ قال: أصابته السماء، يا رسول الله. قال: أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس؟ ‌من ‌غش ‌فليس مني."

(كتاب الإيمان، ‌‌باب قول النبي صلى الله عليه تعالى وسلم: من غشنا فليس منا، رقم الحديث:102، ج:1، ص:69، ط:دار المنھاج)

"سنن الترمذي" میں ہے:

"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة من طعام، فأدخل يده فيها، فنالت أصابعه بللا، فقال: يا صاحب الطعام، ما هذا؟، قال: أصابته السماء يا رسول الله، قال: «أفلا جعلته فوق الطعام حتى يراه الناس، ثم قال:من غش فليس مناوفي الباب عن ابن عمر، وأبي الحمراء، وابن عباس، وبريدة، وأبي بردة بن نيار، وحذيفة بن اليمان: حديث أبي هريرة حديث حسن صحيح والعمل على هذا عند أهل العلم ‌كرهوا ‌الغش، وقالوا: الغش حرام."

(‌‌أبواب البيوع، باب ما جاء في كراهية الغش في البيوع، رقم الحديث:1315، ج:3، ص:598، ط:مكتبة مصطفى البابي الحلبي)

"المبسوط للسرخسي" میں ہے:

"فالبيع ‌ما ‌شرع إلا لطلب الربح والفضل فالفضل الذي يقابله العوض حلال."

(کتاب البیوع، أنواع الربا، ج:12، ص:119، ط:دار المعرفة بيروت)

"رد المحتار على الدر المختار" میں ہے:

"وفي الأشباه لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة وعلى هذا لا يجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف."

(كتاب البيوع، مطلب في بيع الجامكية، ج:4، ص:518، ط:سعيد)

"الأشباه والنظائر لابن نجيم" میں ہے:

"الحقوق ‌المجردة لا يجوز الاعتياض عنها."

(‌‌‌‌كتاب البيوع، بيع المعدوم باطل، ص:178، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

"درر الحكام في شرح مجلة الأحكام"میں ہے:

"قيل في المادة (تبعا للأرض) لأنه إذا بيع حق المرور مستقلا فالبيع غير جائز على رواية؛ لأن هذه الحقوق هي من الحقوق المجردة."

(الكتاب الأول البيوع، الباب الثاني، الفصل الثاني فيما يجوز بيعه وما لا يجوز، بيع حق المرور وحق الشرب والمسيل، رقم المادة:216، ج:1، ص:191، ط:دار الجيل)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144501102198

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں