بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سو روپے دے کر پچاس فورا اور پچاس بعد میں لینا


سوال

ایک شخص نے دوسرے کو سو روپیہ دیے، پھر پچاس فورا ًواپس لے لیے اورپچاس ایک  گھنٹہ بعد لے گا، یہ جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ معاملہ قرض کے طور پر کرنا جائز ہے، یعنی ایک شخص نے دوسرے کو سو روپیہ قرض دیا، پھر  پچاس فوراً واپس لے لیے اور باقی پچاس کچھ دیر بعد واپس لے گا تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

البتہ یہ معاملہ بیع یعنی خرید و فروخت کے طور پر جائز نہیں ہے، یعنی سو روپے کا سو روپے سے تبادلے کا معاملہ کیا اور سو روپے دے کر اس کے عوض   پچاس روپے فوراً  ادا کر دیے اور پچاس  روپے کی ادائیگی بعد میں  کی تو یہ جائز نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(هو) لغة: ما تعطيه لتتقاضاه، وشرعا: ما تعطيه من مثلي لتتقاضاه وهو أخصر من قوله (عقد مخصوص) أي بلفظ القرض ونحوه (يرد على دفع مال) بمنزلة الجنس (مثلي) خرج القيمي (لآخر ليرد مثله) خرج نحو وديعة وهبة.

(وصح) القرض (في مثلي) هو كل ما يضمن بالمثل عند الاستهلاك (لا في غيره) من القيميات كحيوان وحطب وعقار وكل متفاوت لتعذر رد المثل".

(‌‌كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية،فصل في القرض، ‌‌ 5/ 161، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

"(هو) لغة الزيادة. وشرعا (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) - أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحد جنسا وإن) وصلية (اختلفا جودة وصياغة)".

(‌‌كتاب البيوع، باب الصرف، 5/ 257، أيضاً)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101882

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں