بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہنڈی کے کاروبار کا حکم


سوال

ہنڈی کا کاروبار جائز ہے یا نہیں؟

جواب

 حوالہ / ہنڈی کا کاروبار  ملکی و بین الاقوامی قوانین کے مطابق ممنوع ہے؛  پکڑے جانے کی صورت میں  جان و مال کے  نقصان کا خطرہ ہوتا ہے، مباح امور میں اسلام چوں کہ ملکی قوانین   کی پاسداری کا حکم دیتا ہے،  لہذا رقم کی ترسیل کے لیے  قانونی  راستہ  اختیار کرنا چاہیے،  تاہم اگر کوئی حوالہ کے ذریعہ سے رقم بھیجتا ہے  تو   اس کے  لیے   ضروری ہوگا کہ  جتنی رقم دی جائے اتنی ہی رقم آگے پہنچائی جائے، اصل رقم  میں کمی کرکے حوالہ کی فیس کاٹنا جائز نہیں ہوگا، کیوں کہ مروجہ حوالہ / ہنڈی  کی شرعی حیثیت  قرض کی ہے، اور قرض کی جتنی رقم واجب الادا  ہوتی ہے، اتنی ہی لوٹانا شرعًا ضروری ہوتا ہے، البتہ بطورِ فیس/ اجرت الگ سے طے شدہ اضافی رقم کی صورت میں وصول  کی جاسکتی ہے۔

تنقیح الفتاوی الحامدیة "  میں ہے:

"(سئل) فيما إذا استدان زيد من عمرو مبلغا معلوما من المصاري المعلومة العيار على سبيل القرض ثم رخصت المصاري ولم ينقطع مثلها وقد تصرف زيد بمصاري القرض ويريد رد مثلها فهل له ذلك؟

(الجواب) : ‌الديون ‌تقضى بأمثالها."

(باب الصرف، ج:1،ص:281،ط:دار المعرفة)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"و في الأشباه : کل قرض جر نفعاً حرام".

( کتاب البیوع، فصل فی القرض،  ج:5، ص:166، ط: سعید ) 

وفیہ ایضا:

"وفي شرح الْجواهر: تجب إطاعته فيما أباحه الشرْع، وهوما يعود نفْعه على الْعامّة، وقدنصّوا في الْجهاد على امْتثال أمْره في غيْر معْصيةٍ."

( كتاب الأشربة، ج:6، ص:460، ط:سعيد)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(المادة 404) ‌الأجرة ‌الكراء أي بدل المنفعة والإيجار المكاراة والاستئجار الاكتراء وبعبارة أخرى الأجرة هي العوض الذي يعطى مقابل منفعة الأعيان، أو منفعة الآدمي، مثلا: إذا استؤجر بيت، أو خادم بمائة قرش فالمبلغ هو الأجرة وقد عرف في هذه المادة الأجرة أولا والإيجار ثانيا والاستئجار ثالثا فالأول اسم والثاني مصدر قائم بالمؤجر والثالث مصدر قائم بالمستأجر."

(الکتاب الثانی الإجارۃ، ج:1، ص:441، دار الجيل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407102410

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں