بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہنڈی کے ذریعے رقم بھیج کر اضافی رقم دینا


سوال

میں مجبوری کے تحت ہنڈی کے ذریعے پیسے بھجواتا ہوں، میرے پیسے پورے پورے مل جاتے ہیں گھر پر،  لیکن جب ایک مہینے بعد واپس کرتا ہوں تو ایک سو ریال پر دس ریال زیادہ دینا پڑتا ہے، کیا یہ سود کے زمرے میں آتا ہے، یہ صرف ایک مجبوری کی وجہ سے کر رہا ہوں، ورنہ میں بینک کے ذریعے بھیجتا تھا ؟

جواب

ہنڈی کا کاروبار ملکی وبین الاقوامی قوانین کی رو سے ممنوع ہے ؛ اس لیے رقم کی ترسیل کے لیے جائز قانونی راستہ ہی اختیار کرنا چاہیے ، البتہ اگر کسی نے ہنڈی کے ذریعے رقم بھجوائی تو اسے مندرجہ ذیل شرعی حکم کی تفصیل ملحوظ رکھنا لازمی ہے :

1۔ چوں کہ مروجہ ہنڈی (حوالہ) کی حیثیت قرض کی ہے؛ اس لیے جتنی رقم دی جائے اتنی ہی رقم آگے پہنچانا ضروری ہے، اس میں کمی بیشی جائز نہیں ہے، البتہ بطورِ فیس/اجرت الگ سے طے شدہ اضافی رقم لی جاسکتی ہے۔

2۔ کرنسیوں کے مختلف ہونے کی صورت میں (مثلا ایک طرف کرنسی درہم ہے اور دوسری طرف پاکستانی روپیہ ہے ) لازم ہے کہ دوسرےملک جہاں قرض کی ادائیگی کرنی ہے ( مثلاً پاکستان میں) ادائیگی کے وقت یا تو قرض لی ہوئی کرنسی (مثلاً درہم )  ہی پوری پوری واپس کرے یا پھر  جتنے درہم قرض  دیے گئے تھے ادائیگی  کے دن پاکستان میں درہم کے جو ریٹ چل رہے ہوں اس  ریٹ کے مطابق، قرض دیے گئے درہم کے جتنے پاکستانی روپے بنتے ہوں، پاکستان میں ادا کیے جائیں،  درھم کے  مارکیٹ ریٹ سے کم یا زیادہ  طے کر کے لین دین کرنا جائز نہیں ہے۔ 

لہذا صورت مسئولہ میں سو (100) ریال ہنڈی کے طور پر دے کر ایک سو دس ریال ادا کرنا جائز نہیں ہے، یہ زیادتی سود میں شمار ہوگی، البتہ سو ریال ہنڈی کے طور پر بھیجے جائیں اور پاکستان میں وہ پیسے سو ریال ہی پہنچائے جائیں اور ابتدا  ہی سے اس خدمت کی اجرت الگ سے طے کرلی جائے تو  اجرت کے طور پر الگ سے رقم دینا جائز ہوگا۔

"تنقیح الفتاوی الحامدیة"میں ہے:

"الدیون تقضیٰ بأمثالها".

(کتاب البیوع، باب القرض، ج؛۱ ؍ ۵۰۰ ، ط:قدیمی)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"و في الأشباه: کل قرض جر نفعاً حرام".

(کتاب البیوع، فصل فی القرض، ج:۵ ؍ ۱۶۶ ، ط:سعید )

الفقه الإسلامي وأدلته (5/ 331):

"ويتم التعبير عن هذا القرض بتسليم المقرض وصلاً (وثيقة)، يثبت حقه في بدل القرض، ويكون المقترض وهو الصراف أو البنك ضامناً لبدل القرض، ولكنه يأخذ أجراً أو عمولةً على تسليم المبلغ في بلد آخر مقابل مصاريف الشيك أوأجرة البريد أو البرقية أو التلكس فقط؛ لتكليف وكيل الصراف بالوفاء أو السداد. وهذان العقدان: الصرف والتحويل القائم على القرض هما الطريقان لتصحيح هذا التعامل، فيما يبدو لي".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200447

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں