بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہنڈی کے دریعہ رقم کی ترسیل کا حکم


سوال

 جہا ں  ہم دبئی میں رہتے ہیں ، یہاں بہت سارے لوگ پاکستان انڈیا اور بنگال کے ہیں  ،یہ لوگ پیسے جب ملک بھیجنا ہوتا ہے تو بینک کے ذریعہ سے نہ بھیج کر ہنڈی والے کو دیتے ہیں  ،وہ اگر بینک کا ریٹ 22 روپیہ چل رہا ہے تو ہنڈی والے 23 روپیہ دیتے ہے تو کیا ہنڈی سے بھیجنا جائز ہے یا ناجائز؟ ہنڈ ی کے معنی ہے کہ  ایک آدمی اس کا دبئی میں ہوگا دوسرا انڈیا یا پاکستان میں ہوگا ،ہم اس کو پیسے دیں گے وہ فون کے ذریعہ  بتا ئے گا کہ  اتنا پیسے محمود کو دے دو تو کیا ایسا کرنا جائز ہے اگر جائز ہے تو کیسے وہ بھی بتا دیں  جب کے گورنمنٹ کا اس میں نقصان ہے۔ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ ہنڈی کا کاروبار ملکی قوانین کی رو سے ممنوع ہے ؛ اس لیے رقم کی ترسیل کے لیے  قانونی راستہ ہی اختیار کرنا چاہیے ،قانون کی خلاف ورزی نہ کی جائے ، البتہ اگر کسی نے ہنڈی کے ذریعے رقم بھجوائی تو اسے مندرجہ ذیل شرعی حکم کی تفصیل ملحوظ رکھنا لازمی ہے :

1۔ چوں کہ مروجہ ہنڈی (حوالہ) کی حیثیت قرض کی ہے؛ اس لیے جتنی رقم دی جائے اتنی ہی رقم آگے پہنچانا ضروری ہے، اس میں کمی بیشی جائز نہیں ہے، البتہ بطورِ فیس/اجرت الگ سے طے شدہ اضافی اور زائد  رقم لی جاسکتی ہے۔مثلاً یوں طے ہوجائے کہ زید دبئی سے ایک ہزار دراہم پاکستانی بھجوائے گا ،اس پر بکر زید سے مثلاً پچاس درہم بطور اجرت وصول کرے گا اور اجرت علیحدہ سے دی جائے ۔

2۔ کرنسیوں کے مختلف ہونے کی صورت میں (مثلا ایک طرف کرنسی درہم ہے اور دوسری طرف پاکستانی روپیہ ہے ) لازم ہے کہ دوسرےملک جہاں قرض کی ادائیگی کرنی ہے ( مثلاً پاکستان میں) ادائیگی کے وقت یا تو قرض لی ہوئی کرنسی (مثلاً درہم )  ہی پوری پوری واپس کرے یا پھر  جتنے درہم قرض  دیے گئے تھے ادائیگی  کے دن پاکستان میں درہم کے جو ریٹ چل رہے ہوں اس  ریٹ کے مطابق، قرض دیے گئے درہم کے جتنے پاکستانی روپے بنتے ہوں، پاکستان میں ادا کیے جائیں،  درھم کے  مارکیٹ ریٹ سے کم یا زیادہ  طے کر کے لین دین کرنا جائز نہیں ہے۔ 

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے :

"ويتم التعبير عن هذا القرض بتسليم المقرض وصلا (وثيقة) يثبت حقه في بدل القرض، ويكون المقترض وهو الصراف أو البنك ضامنا لبدل القرض، ولكنه يأخذ أجرا أو عمولة على تسليم المبلغ في بلد آخر مقابل مصاريف الشيك أوأجرة البريد أو البرقية ‌أو ‌التلكس ‌فقط، لتكليف وكيل الصراف بالوفاء أو السداد.وهذان العقدان: الصرف والتحويل القائم على القرض هما الطريقان لتصحيح هذا التعامل، فيما يبدو لي، والله أعلم".

(ج:5،ص:3673،دارالفکر)

تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے :

"الدیون تقضیٰ بأمثالها".

(كتاب البيوع،باب القرج ،ج:1،ص:500،قديمي)

فتاوی شامی میں ہے :

"‌والأجرة ‌إنما ‌تكون ‌في ‌مقابلة ‌العمل".

(باب المہر،ج:3،ص:156،سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"الأجير المشترك من يستحق الأجر بالعمل لا بتسليم نفسه للعمل والأجير الخاص من يستحق الأجر بتسليم نفسه وبمضي المدة ولا يشترط العمل في حقه لاستحقاق الأجر".

(کتاب الاجارۃ،ج:4،ص:500،دارالفکر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407100948

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں