بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہنڈی کا حکم اور ہنڈی رسید کی خرید وفروخت


سوال

ہنڈی بھیجنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

 ہنڈی کا کاروبار  ملکی و بین الاقوامی قوانین کی رو سے ممنوع ہے؛  پکڑے جانے کی صورت میں  جان و مال کے  نقصان کا خطرہ ہوتا ہے، مباح امور میں اسلام چوں کہ ملکی قوانین کی پاسداری کا حکم دیتا ہے،  لہذا رقم کی ترسیل کے لیے  قانونی راستہ  اختیار کرنا چاہیے، البتہ ہنڈی سے رقم کی ترسیل درج ذیل تفصیل کے مطابق اگر ہو تو اسے حرام قرار نہیں دیا جائے گا:

1-  مروجہ ہنڈی (حوالہ) کی حیثیت قرض کی ہے؛ اس لیے جتنی رقم دی جائے اتنی ہی رقم آگے پہنچانا ضروری ہوگا، اس میں کمی بیشی جائز نہیں ہوگی، البتہ بطورِ فیس/ اجرت الگ سے طے شدہ اضافی رقم لی جاسکتی ہے۔

2- کرنسیوں کے مختلف ہونے کی صورت میں  لازم ہوگا کہ  جس ملک میں قرض کی ادائیگی کرنی ہے،  ادائیگی کے وقت  قرض لی ہوئی کرنسی   ہی  ادا کردے یا  جو کرنسی قرض  دی گئی تھی ادائیگی یا وصولیابی کے دن  اس کرنسی کے  جو ریٹ چل رہے ہوں ان میں سے  کسی ایک ریٹ کو متعین کر کے اس کے مطابق، قرض دی گئی کرنسی کے مساوی کرنسی ادا کردی جائے۔

 مارکیٹ ریٹ سے کم یا زیادہ  طے کر کے لین دین کرنا جائز نہیں ہے۔ اجرت جدا گانہ طے کی جائے۔

3- "ہنڈی"  کی حیثیت قرض کی ہے، "بیعِ صرف"  (کرنسی کی خرید و فروخت) کی نہیں؛ لہٰذا ہنڈی کے معاملے میں مجلسِ عقد میں جانبین سے قبضہ شرط نہیں ہے،  "بیعِ صرف" میں دونوں جانب سے مجلسِ عقد میں قبضہ ضروری ہوتا ہے، نہ کہ قرض میں۔

رد المحتار على الدر المختار میں ہے:

"وفي شرح الجواهر: تجب ‌إطاعته فيما أباحه الشرع، وهو ما يعود نفعه على العامة، وقد نصوا في الجهاد على امتثال أمره في غير معصية."

(كتاب الأشربة، ج:6، ص:460، ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ‌يعزر) لأن طاعة أمر السلطان بمباح."

( كتاب البيوع، باب المراحبة و التولية، فصل في القرض، مطلب كل قرض جر نفعا حرام، ج:5، ص:167، ط:سعيد)

السنن الکبری للبیہقی میں ہے:

"عن عطاء بن أبي رباح أن عبد الله بن الزبير كان يأخذ من قوم بمكة دراهم ، ‌ثم ‌يكتب بها إلى مصعب بن الزبير بالعراق فيأخذونها منه ، فسئل ابن عباس عن ذلك فلم ير به بأسا ، فقيل له: إن أخذوا أفضل من دراهمهم، قال: " لا بأس إذا أخذوا بوزن دراهمهم."

(کتاب البیوع، باب ماجاء فی السفاتیج، ج:5، ص:576، ط:دار الکتب العلمیة)

 مصنف ابن شیبہ میں ہے:

"حدثنا أبو بكر قال: حدثنا حفص، عن أشعث، عن الحكم، عن إبراهيم، قال: «‌كل ‌قرض ‌جر منفعة، فهو ربا."

(کتاب البیوع، باب من کرہ  کل قرض جر منفعة، ج:4، ص:327، ط:مکتبة الرشد، لبنان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406100370

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں