بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہنڈی کا مسئلہ


سوال

میں یہ مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ بعض اوقات لوگ ایک دوسرے کو دوسرے ممالک میں نقد ر قم پہنچاتے ہیں، جسے مارکیٹ کی اصطلاح میں ہنڈی یا حوالہ کہا جاتا ہے، لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اگر نقدر قوم کی ترسیل میں بینک کا سہار الیا جائے یا قانونی راستہ اختیار کیا جائے تو بہت سی قانونی پیچید گیاں لاحق ہوتی ہیں اور اپنے پیسے کو پاک صاف حلال اور وائٹ منی ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے، ایسی صور تحال میں جس ملک سے کرنسی بھیجی ہوتی ہے وہ ہی وصول کرتے ہیں اور بعض اوقات جس ملک میں بھیجی ہوتی ہے اسکی کرنسی واپس لیتے ہیں۔ اور اس سہولت کے عوض میں ان سے مقررہ فیس وصول کرتے ہیں۔

مثلا کوئی کلائنٹ دوبئی میں کسی کو کہتا ہے کہ پاکستان میں فلاں شخص کو 20 ہزار روپے دید و اب وہ کلا ئنٹ سے دوبئی میں یا تو 20 ہزار روپے میں جتنے دور ہم بنتے ہیں وہ وصول کرتا ہے یا پاکستان میں رہتے ہوئے پاکستانی کرنسی وصول کرتا ہے ، مگر پاکستان میں درہم کی روپے کے ساتھ تبادلے کی قیمتوں میں بھی بہت فرق ہوتا ہے، تین قسم کے ریٹ عمو رائج العمل ہیں، انٹر بینک، نیشنل بینک اور حوالہ یا ہنڈی والوں کے ریٹ

وضاحت طلب امور یہ ہیں۔

(1) حوالہ یا ہنڈی کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ کیا اسطرح معاملہ کرنے کی اجازت ہے ؟

(۲) اس سہولت کے عوض فیس وصول کی جاسکتی ہے؟

(۳) درہم یا پاکستانی کرنسی میں سے کسی کو بھی وصول کرنے کی اختیار ہے یا اس میں کوئی شرائط ہیں؟

(۴) پاکستانی کرنسی میں وصول کرتے وقت پاکستان میں کونسی قیمت میں وصول کیا جائے؟ انٹر بینک ، نیشنل بینک اور حوالہ یا ہنڈیوالوں کے ریٹ)

جواب

  1. "ہنڈی"  کا کاروبار ملکی وبین الاقوامی قوانین کی رو سے ممنوع ہے، اس لیے رقم کی ترسیل کے لیے جائز قانونی راستہ ہی اختیار کرنا چاہیے۔  البتہ اگر کسی نے ہنڈی کے ذریعے رقم بھجوائی  تو ہنڈی کے کاروبار کرنے والے پر لازم ہو گا کہ جتنی رقم اس کو  دی جائے وہ  اتنی ہی رقم آگے پہنچا دے، اس میں کمی بیشی جائز نہیں ہے۔ ہاں بطورِ فیس الگ سے طے شدہ اضافی رقم بطورِ معاوضہ  لی جاسکتی ہے۔کرنسیوں کے مختلف ہونے کی صورت میں ( جیسا کہ سوال میں ایک طرف درہم ہے اور دوسری طرف پاکستانی روپیہ ہے) ادائیگی کے وقت اس ملک کی کرنسی کے مارکیٹ ریٹ کے مطابق ادائیگی کی جائے۔
  2. ملحوظ رہے ہنڈی کا معاملہ "بیعِ صرف" کا نہیں ہے کہ اس میں جانبین کا مجلسِ عقد میں قبضہ ضروری ہو، بلکہ ہنڈی بیع ہے ہی نہیں، ہنڈی کا معاملہ شرعاً قرض ہے، اور اس پر جو الگ سے طے شدہ اجرت لی جاتی ہے وہ اجارہ ہے، اور یہ دونوں الگ الگ معاملہ ہنڈی میں انجام پاتے ہیں، اور قرض میں جانبین سے قبضہ ضروری نہیں ہے۔
  3. صورت مسؤلہ میں  مطلوبہ رقم کی وصولی کے وقت  جس قدر   رقم دی گئی تھی اتنی ہی ادا کرنا واجب ہے  اور  ادائیگی  میں اس کے بقدر دوسری کرنسی میں لی جاسکتی ہے۔
  4. نیز  ہنڈی کے کاروبار میں مارکیٹ ریٹ  ہی پر ادا ئیگی لازم ہے ۔ اور اگر کئی مارکیٹ ریٹ رائج ہوں  تو  ان میں سے  کسی بھی ایک کو ادائیگی کے وقت متعین کیا جاسکتا ہے۔

"تنقیح الفتاوی الحامدیة"میں ہے:

"الدیون تقضیٰ بأمثالها".

(کتاب البیوع، باب القرض، ج؛۱ ؍ ۵۰۰ ، ط:قدیمی)

الفقه الإسلامي وأدلته میں ہے:

"ويتم التعبير عن هذا القرض بتسليم المقرض وصلاً (وثيقة)، يثبت حقه في بدل القرض، ويكون المقترض وهو الصراف أو البنك ضامناً لبدل القرض، ولكنه يأخذ أجراً أو عمولةً على تسليم المبلغ في بلد آخر مقابل مصاريف الشيك أوأجرة البريد أو البرقية أو التلكس فقط؛ لتكليف وكيل الصراف بالوفاء أو السداد. وهذان العقدان: الصرف والتحويل القائم على القرض هما الطريقان لتصحيح هذا التعامل، فيما يبدو لي". 

 ( کتاب البیوع 5/ 331 ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101837

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں