بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہنڈی کے کاروبار کا حکم


سوال

میں یہاں کراچی میں حوالے کے طور پر کسی سے ایک لاکھ روپے مثلًا لے کر کوئٹہ میں اسے دیتا ہوں،  لیکن فیصد  کے اعتبار سے میں اس پر تقریبا پندرہ سو لیتا ہوں۔ شریعت کی روشنی میں اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب

 حوالہ / ہنڈی کا کاروبار  ملکی و بین الاقوامی قوانین کے مطابق سے ممنوع ہے؛  پکڑے جانے کی صورت میں  جان و مال کے  نقصان کا خطرہ ہوتا ہے، مباح امور میں اسلام چوں کہ ملکی قوانین   کی پاسداری کا حکم دیتا ہے،  لہذا رقم کی ترسیل کے لیے  قانونی  راستہ  اختیار کرنا چاہیے،  تاہم اگر کوئی حوالہ کے ذریعہ سے رقم بھیجتا ہے  تو   اس کے  لیے   ضروری ہوگا کہ  جتنی رقم دی جائے اتنی ہی رقم آگے پہنچائی جائے، اصل رقم  میں کمی کرکے حوالہ کی فیس کاٹنا جائز نہیں ہوگا، کیوں کہ مروجہ حوالہ / ہنڈی  کی شرعی حیثیت  قرض کی ہے، اور قرض کی جتنی رقم واجب الادا  ہوتی ہے، اتنی ہی لوٹانا شرعًا ضروری ہوتا ہے، البتہ بطورِ فیس/ اجرت الگ سے طے شدہ اضافی رقم کی صورت میں وصول  کی جاسکتی ہے۔

تنقیح الفتاوی الحامدیة   میں ہے:

"الدیون تقضیٰ بأمثالها".

(کتاب البیوع، باب القرض،١ / ٥٠٠، ط: قديمي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"و في الأشباه: کل قرض جر نفعاً حرام".

( کتاب البیوع، فصل فی القرض،  ٥ / ١٦٦، ط: سعید ) 

رد المحتار على الدر المختار میں ہے:

"وفي شرح الْجواهر: تجب إطاعته فيما أباحه الشرْع، وهوما يعود نفْعه على الْعامّة، وقدنصّوا في الْجهاد على امْتثال أمْره في غيْر معْصيةٍ."

( كتاب الأشربة، ٦ / ٤٦٠، ط: دار الفكر)

احكام القرآن لظفر احمد عثماني میں ہے:

"و هذا الحكم أي وجوب طاعة الأمير يختص بما إذا لم يخالف أمره الشرع، يدل عليه سياق الآية فإن الله تعالي أمر الناس بطاعة أولي الأمر بعد ما أمرهم بالعدل، في الحكم تنبيها علي أن طاعتهم واجبة ماداموا علي العمل."

(طاعة الأمير فيما لايخالف الشرع، النساء: ٥٩، ٢ / ٢٩١ - ٢٩٢، ط: إدارة القرآن)

الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:

"ويتم التعبير عن هذا القرض بتسليم المقرض وصلاً (وثيقة)، يثبت حقه في بدل القرض، ويكون المقترض وهو الصراف أو البنك ضامناً لبدل القرض، ولكنه يأخذ أجراً أو عمولةً على تسليم المبلغ في بلد آخر مقابل مصاريف الشيك أوأجرة البريد أو البرقية أو التلكس فقط؛ لتكليف وكيل الصراف بالوفاء أو السداد. وهذان العقدان: الصرف والتحويل القائم على القرض هما الطريقان لتصحيح هذا التعامل، فيما يبدو لي، واللہ اعلم

وأما الحوالة البريدية في داخل الدولة بدون صرافة فجائزة بلا خلاف:

أـ فإن سلم المبلغ للموظف أمانة جاز بلا كراهة، ولا يضمنه إلا بالتعدي أو التقصير في الحفظ، لكن إذا خلطت المبالغ والحوالات ببعضها وهو مايتم بالفعل كانت مضمونة على المؤسسة.

ب ـ وإن أعطي المبلغ قرضا دون شرط دفعه إلى فلان، ثم طلب من الموظف ذلك بعد القرض؛ جاز.

جـ ـ وإن أعطي المبلغ قرضا بشرط دفعه إلى فلان في بلد كذا، فإن لم يقصد المقرض ضمان المقترض خطر الطريق، جازت الحوالة بالاتفاق، وإن قصد بذلك ضمان خطر الطريق لم يصح العقد عند الجمهور كالسفتجة كما بينت في بحث القرض، وجازت المعاملة عند الحنابلة. "

( ما يترتب على اشتراط قبض البدلين في مجلس عقد الصرف قبل الافتراق، ٥ / ٣٦٧٣، ط: دار الفكر - سوريَّة - دمشق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100206

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں