بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہم بستری کے بعد غسل میں تاخیر کرنا اور ناپاکی کی حالت میں کھانے پینے کا حکم


سوال

1۔ہم بستری کے بعد غسل کرنے میں کتنی تاخیر کرسکتے ہیں ؟

2۔ہم بستری کے بعد کھانے، پینے یا کھانا پکانے اور دودھ پینے والے بچے کو دودھ پلانا کیسا ہے؟

جواب

1۔ہم بستری کے بعد افضل یہی ہے کہ  آدمی جلدی غسل کر کے پاک صاف ہوجائے، لیکن اگر نماز کے وقت تک غسل کو مؤخر کردے تو گناہ گار نہیں ہوگا۔ البتہ فجر تک غسل مؤخر کرنے کی صورت میں اگرہم بستری کے بعد سونا ہو تو بہتر یہ ہے کہ آدمی  استنجا اوروضو کرلے پھر سوجائے، اور پھر  بیدار ہوکر غسل کرلے۔ چنانچہ مشکوۃ شریف کی روایت میں ہے:

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے رات کو جنابت  لاحق ہوتی ہے (یعنی احتلام یا جماع سے غسل واجب ہوتا ہے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (اسی وقت) وضو کر کے عضو کو دھو کر سو جایا کرو۔

مظاہرحق میں ہے:

یہ وضو کرنا جنبی کے سونے کے لیے طہارت ہے، یعنی جنبی وضو کر کے سویا تو گویا وہ پاک سویا، لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جسے رات کو احتلام ہو جائے یا جماع سے فراغت ہو اور اس کے بعد سونے کا ارادہ یا بوجہ کسی ضرورت بے وقت غسلِ جنابت میں تاخیر کا خیال ہو تو ایسی شکل میں جنبی کا وضو کر لینا سنت ہے۔ اتنی بات اور سمجھ لیجیے  کہ حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ صورتِ مذکورہ میں وضو کیا جائے اس کے بعد عضوِ تناسل کو دھویا جائے، حال آں کہ ایسا نہیں ہے، بلکہ صحیح مسئلہ یہ ہے کہ پہلے عضوِ تناسل کو دھونا چاہیے، اس کے بعد وضو کرنا چاہیے، اس شکل میں حدیث کی مذکورہ ترتیب کے بارے میں کہا جائے گا کہ یہاں وضو کرنا اس لیے مقدم کر کے ذکر کیا گیا ہے کہ وضو کا احترام اور اس کی تعظیم کا اظہار پیش نظر تھا۔

2۔حالت جنابت میں کھانا پینا یا کھانا پکانا درست ہے، بہتر یہ ہے کہ وضو کرکے کھائے پیے، اور اگر وضو کے بغیر صرف ہاتھ منہ دھوکر کھا پی لے تب بھی جائز ہے۔

بچہ کو دودھ پلانے کے لیے ماں کا پاک ہونا ضروری نہیں ہے؛ لہٰذا بچہ رورہاہو تو  عورت ناپاکی  کی حالت میں دودھ پلاسکتی ہے،لیکن کوشش یہ کرنی چاہیے کہ جلد از جلد غسل کر لیا جائے، حالتِ جنابت میں زیادہ دیر تک نہ رہنا چاہیے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (1 / 49):

 والمنقول في فتاوى قاضيخان الجنب إذا أراد أن يأكل أو يشرب فالمستحب له أن يغسل يديه وفاه وإن ترك لا بأس.

المبسوط للسرخسي- (1 / 131):

قال: "وإن توضأ قبل أن ينام فهو أفضل" لحديث عائشة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم أصاب من أهله فتوضأ ثم نام وهذا لأن الاغتسال والوضوء محتاج إليه للصلاة لا للنوم و المعاودة إلا أنه إذا توضأ ازداد نظافة فكان أفضل. "فإن أراد أن يأكل فالمستحب له أن يغسل يديه ويتمضمض ثم يأكل" لحديث ابن عباس رضي الله تعالى عنهما أنه قال: سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن الجنب أيأكل ويشرب قال: "نعم إذا توضأ" والمراد غسل اليد لأن يده لا تخلو عن نجاسة عادة فالمستحب إزالتها بالماء وكذلك لو لم يتوضأ حتى شرب كان من وجه شاربا للماء المستعمل فإن ترك ذلك لم يضره لأن طهارة يده أصل وفي النجاسة شك.

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144201201203

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں