بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حُمیرا اور ارم نام رکھنا


سوال

لڑکی کا نام "حُمیرا اِرَم " رکھ سکتے ہیں؟

جواب

"حُمَیرَاء" اس کا معنی ہے:سفیدفام عورت۔ (القاموس الوحید:375، ط:ادارۃ الاسلامیات،لاہور)

یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا توصیفی نام ہے، آپﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس نام سے پکاراہے، لہذا یہ نام بچی  کا رکھنا درست ہے۔

المعجم الوسیطمیں ہے:

الحمیراء مصغر الحمراء، وصف للسیدة عائشة رضي الله عنها في قول الرسول صلی الله علیه وسلم: ”خذوا نصف دینکم عن هذہ الحمیراء“.(المعجم الوسيط: (ص:197) ط: مجمع اللغة العربية)

جبکہ ’’اِرَم‘‘ کے مختلف معانی ہیں: (1) قوم عاد کا جدِ اعلیٰ (2)  قوم عاد کا شہر (3) بہشت (جنت) جسے شدادِ عاد نے ملکِ صنعاء اور حضرموت کے درمیان بنایا تھا، اور فارسی زبان میں اس لفظ کے معنی  بہشت اور جنت کے ہیں۔ (لغات فارسی) اور اس کے علاوہ یہ  تباہ شدہ قوم جس کی ایک شاخ عاد ہے کو بھی کہتے ہیں(قاموس)۔ 

بعض معانی کے اعتبار سے یہ نام رکھنا درست ہے، لیکن چوں کہ تباہ اور ہلاک شدہ قوموں کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے، اس لیے اس کے بجائے دیگر اچھے اور بامعنی نام رکھے جائیں تو یہ زیادہ بہتر ہے۔

تاج العروس : 

"(و) {إرَمُ} وأَرامٌ (كَعِنَبٍ وسَحابٍ: والِدُ عادٍ الأولىَ، أَو الْأَخِيرَة، أَو اسمُ بَلْدَتِهِم) الَّتِي كَانُوا فِيهَا، (أَو أُمِّهِم أَو قَبِيلَتِهِم) . مَنْ تَرَكَ صَرْفَ إِرَم جعله اسْما للقبيلة، (و) فِي التَّنْزِيل: {بعاد إرم ذَات الْعِمَاد} ، قَالَ الجوهريّ: من لم يُضِفْ، جعل إِرَمَ اسْمَه وَلم يَصْرِفْه، لأنّه جعل عادًا اسمَ أَبِيهم، وَمن قَرَأَهُ بالإضافَة وَلم يَصْرِفْه جعله اسمَ أُمِّهم أَو اسمَ بَلْدَة. وَقَالَ ياقوتُ - نَقْلاً عَن بَعضهم -: إِرَمُ لَا ينْصَرف للتَّعْرِيف والتَّأْنِيث لأنَّه اسمُ قَبِيلَة، فعلى هَذَا يكونُ التقديرُ: إِرَم صاحبِ ذَات العِمادِ، لأنّ ذَات العمادِ مدينةٌ، وَقيل: ذاتُ العِمادِ وصفٌ، كَمَا تَقول: القَبِيلَةُ ذاتُ المُلْك، وَقيل: إِرَمُ مدينةٌ، فعلى هَذَا يكون التَّقْدِير بعادٍ صاحبِ إِرَمَ. ويقرأُ: بِعادِ إِرَمَ ذاتِ العِماد، بالجَرّ على الْإِضَافَة. ثمَّ اختُلِف فِيهَا، مَنْ جعلهَا مَدِينَة، فَمنهمْ من قَالَ هِيَ أَرْضٌ كَانَت وانْدَرَسَتْ، فَهِيَ لَا تُعْرَف، وَقيل: (دِمَشْق) وَهُوَ الأكْثَر، وَلذَلِك قَالَ شبيبُ بن يَزِيدَ بنِ النُّعْمان بنِ بَشِير:
(لَوْلا الَّتي عَلِقَتْنِي من عَلائِقها ... لَمْ تُمْسِ لي إِرَمٌ دَارا وَلَا وَطَنا)
قَالُوا: أَرَادَ دِمَشْقَ، وَإِيَّاهَا أَرَادَ البُحْتَرِيُّ بِقَوْلِه:
(إِلَى إِرَمٍ ذاتِ العِماد وإنّها ... لَمَوْضِعُ قَصْدِي مُوجِفًا وَتَعَمُّدِي)
(أَو الإسْكَنْدَرِيّة) . وَحكى الزمخشريُّ: أنّ إِرَمَ بلدٌ مِنْهُ الإٍ سكندريّة. ورَوَى آخَرُونَ: أنّ إِرَمَ ذَات العِمادِ باليَمَنِ بَين حَضْرموتَ وَصَنْعاءَ من بِناءِ شَدّادِ بن عَاد، وذَكَرُوا فِي ذَلِك خَبرا طَويلا لم أذكرهُ هُنَا خشيَة المَلالِ والإطالَة".

(31/ 206)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144411102578

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں