بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو القعدة 1446ھ 22 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

ہم مسلمان جھگڑوں اور دھوکے بازیوں کا جواب کیسے دے سکتے ہیں؟


سوال

آج ہم مسلمان کیسے اندرونی اور بیرونی جھگڑوں اور دھوکے بازیوں کا جواب دے سکتے ہیں، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے منافقین کے ساتھ کیا تھا؟

جواب

واضح رہے کہ دشمنانِ اسلام نے ہمیشہ سے مسلمانوں کا شیرازہ منتشر کرنے کے لئے  برادری اور وطنی قومیت کا حربہ استعمال کیا ہے، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ :تعاون و تناصر کا اسلامی معیار ”حق و انصاف“ سب کے ذہنوں سے اوجھل ہو جاتا ہے، صرف برادری اور قومیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا اصول بن جاتا ہے ، اس طرح وہ مسلمانوں کو مسلمانوں سے بھڑا دیتا ہے، جب اور جس وقت موقع مل گیا ہے اسی سے کام لے کر مسلمانوں میں تفرقہ ڈالا ہے۔

صورت مسئولہ میں آج ہم اندرونی وبیرونی جھگڑوں اور دھوکے بازیوں کا جواب اپنے آپ کو  قرآنی اصولِ تعاون پر قائم کر کے دے سکتے ہیں، جس میں ارشاد ہے "تعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنوا على الإثم والعدوان" یعنی مسلمانوں کے لئے کسی کی مدد کرنے یا مدد حاصل کرنے کا معیار یہ ہونا چاہئے کہ: جو شخص عدل وانصاف اور نیکی پر ہے اس کی مدد کر دیا اگر چہ وہ نسب و خاندان اور زبان و وطن میں تم سے الگ ہو ،اور جو شخص کسی گناہ اور ظلم پر ہو اس کی ہر گز مدد نہ کرو اگر چہ وہ تمھارا باپ اور بھائی ہی ہو،دین واصولِ دین سے غفلت کی بناء پرہم میں سے اکثرمسلمان اس جال میں پھنس کر باہمی خانہ جنگیوں کے شکار ہو گئےہیں، اور کفر و الحاد کے مقابلہ کے لئے ہماری متحدہ قوت پاش پاش ہو گئی ہے،اب بھی ہم اگررنگ و نسل اور زبان و وطن کے بتوں کو پھر ایک دفعہ توڑ ڈالیں تو آج بھی خدا تعالیٰ کی نصرت و امداد کا مشاہدہ کھلی آنکھوں ہونے لگے۔ (معارف القرآن،ج:8،ص:454،ط:مکتبۃ معارف القرآن)

خلاصہ یہ ہے کہ اگر مسلمان دین اسلام کے لیے مخلص ہوں گے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل اتباع کریں گے، تو اندرونی اور بیرونی تمام جھگڑوں سے محفوظ رہیں گے۔

تفسیر قرطبی میں ہے:

"(وتعاونوا على البر والتقوى).....والتعاون على البر والتقوى يكون بوجوه، فواجب على العالم أن يعين الناس بعلمه فيعلمهم ،ويعينهم الغني بماله، والشجاع بشجاعته في سبيل الله، وأن يكون المسلمون متظاهرين كاليد الواحدة (المؤمنون تتكافؤ دماؤهم ويسعى بذمتهم أدناهم وهم يد على من سواهم). ويجب الإعراض عن المتعدي وترك النصرة له ورده عما هو عليه. ثم نهى فقال. (ولا تعاونوا على الإثم والعدوان) وهو الحكم اللاحق عن الجرائم ،وعن" العدوان" وهو ظلم الناس."(سورۃ المائدۃ:2)

(ج:6، ص:47، ط:دار الکتب المصریة)

وفیہ ایضاً:

"حدثنا سعيد الجريري عن أبي نضرة قال: حدثني أو حدثنا من شهد خطب رسول الله صلى الله عليه وسلم بمنى في وسط أيام التشريق وهو على بعير فقال:] يا أيها الناس ألا إن ربكم واحد وإن أباكم واحد ألا لا فضل لعربي على عجمي ولا عجمي على عربي ولا لأسود على أحمر ولا لأحمر على أسود إلا بالتقوى ألا هل بلغت؟ - قالوا نعم قال- ليبلغ الشاهد الغائب"(سورۃ الحجرات،13)

(ج:16، ص:340، ط:دار الکتب المصریة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144610101506

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں