بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہم جنس پرستی اور نکاح


سوال

 ایک انسان اگر قدرتی طور پر بچپن سے ہی اپنے ہم جنس کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور محبت کے جذبات بھی ہم جنس کے  لیے ہی نکلیں تو ایسے انسان کی شادی اس کے مخالف جنس سے کروانا جس جنس کی طرف اس کی رغبت ہی نہیں، اس کو زمانے اور دنیا والوں کا خوف دلا کر اس کی شادی کروانا کیا درست ہے؟ اور اسلام میں ایسے انسان کے  لیے کیا حکم ہے وہ کیا کرے؟ جسم سے تو وہ پورا ہی ہے یعنی لڑکا یا لڑکی، لیکن محبت اسے اپنے ہم جنس سے ہی ہوتی ہے اوریہ بات اس میں بچپن سے ہی ہو تو ایسا انسان کیا کرے؟

جواب

ہم جنس پرستی زنا سے زیادہ بدتر جرم ہے،  اور یہ  فطرتِ سلیمہ کے بھی خلاف  ہے، سابقہ امتوں میں سے ایک اُمّت پر اسی قبیح عمل کو اختیار کرنے کی وجہ سے عذاب آیا تھا، ان کی بستی کو اوپر اٹھا کر زمین پر الٹ دیا گیا تھا اور پھر پتھروں کی بارش برسائی گئی تھی،  جس سے پوری قو م ہلاک ہوگئی تھی؛  لہذا اس جرم کی شدت زنا سے زیادہ ہے اور   اس کی سزا بھی زنا سے زیادہ سخت ہے، مثلًا فقہاءِ کرام نے لکھا ہے کہ اس عمل میں  مبتلا  شخص کو قاضی سخت سے سخت سزا دے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے یہاں تک منقول ہے کہ: اس شخص کو پہاڑ سے نیچے گراکراس پر پتھر برسائے جائیں؛ اس  لیے کہ اللہ تعالی نے اس عمل میں مبتلاقوم کو یہی سزا دی ہے،یا آگ میں جلادے ،یا اور جو سخت سے سخت سزا دینا چاہے دےسکتاہے۔

نیز  اس عمل کی اخروی سزا بھی بہت زیادہ ہے ،  کل قیامت کے دن جب ہر شخص اللہ تعالی کے رحم وکرم کابہت زیادہ محتاج ہوگا،  اس عمل کے کرنےولااللہ تعالی کی نگاہِ  رحمت سے محروم رہےگا۔

واضح رہے کہ  رغبت ہو یا نہ  ہو ،  نکاح  غیر جنس میں ہی جائز ہو گا ، ہم جنس میں حرام ہو گا ۔  اور شروع سے ہی ہم جنس کی طرف مائل ہونا  نکاحِ مسنون کو ترک کرنے  یا ہم جنس پرستی کی طرف میلان کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتا،  طبائعِ سلیمہ اس سے نفرت کرتی ہیں، اس لیے انسان کی فطرت اس کے خلاف ہے، جو شخص شروع سے ہی اس طرف مائل ہو، درحقیقت اس کی فطرت میں بگاڑ آچکا ہے، ایسے شخص کو اس مرض کے علاج کی ضرورت ہے؛ لہٰذا ایسے شخص کو سمجھا یا جائے، اور کسی  اچھے  ماہر نفسیات سے اس کا علاج کرائیں  ، نیز کسی مستند صاحبِ دل اللہ والے سے اِصلاحی تعلق قائم کرے تو ان شاء اللہ یہ مرض دور ہوجائے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 27):

"مطلب في حكم اللواطة

(قوله: بنحو الإحراق إلخ) متعلق بقوله: يعزر. وعبارة الدرر: فعند أبي حنيفة يعزر بأمثال هذه الأمور. واعترضه في النهر بأن الذي ذكره غيره تقييد قتله بما إذا اعتاد ذلك. قال في الزيادات: والرأي إلى الإمام فيما إذا اعتاد ذلك، إن شاء قتله، وإن شاء ضربه وحبسه. ثم نقل عبارة الفتح المذكورة في الشرح، وكذا اعترضه في الشرنبلالية بكلام الفتح. وفي الأشباه من أحكام غيبوبة الحشفة: ولايحد عند الإمام إلا إذا تكرر؛ فيقتل على المفتى به. اهـ. قال البيري: والظاهر أنه يقتل في المرة الثانية لصدق التكرار عليه. اهـ".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 27):

"ولو اعتاد اللواطة قتله الإمام سياسةً".

درر الحكام شرح غرر الأحكام (2/ 66):

"ولذا قال الكمال: لو اعتاد اللواطة سواء كان بأجنبي أو عبده أو أمته أو زوجته بنكاح صحيح أو فاسد قتله الإمام محصنًا كان أو غير محصن سياسةً اهـ".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144301200001

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں