بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہمبستری کے بعد غسل میں تاخیر کاحکم


سوال

 ہمبستری کے بعد کس وقت غسل کر سکتے ہیں اور سردیوں میں سردی کی وجہ سے اگلے دن دوپہر کے وقت  تک غسل کر سکتے ہیں ۔

جواب

صورت مسئولہ میں ہم بستری کے بعد افضل یہی ہے کہ جلدی غسل کر کے پاک صاف ہوجائے، لیکن اگر نماز کے وقت تک غسل کو مؤخر کردے تو گناہ گار نہیں ہوگا ، البتہ فجر تک غسل مؤخر کرنے کی صورت میں بہتر یہ ہے کہ   استنجا اوروضو کرلے پھر سوجائے، اور پھر  بیدار ہوکر غسل کرلے، لیکن اگلے دن ظہر تک  غسل کومؤخر کرنااور فجر کی نماز قضا کرنا کسی طرح بھی  درست نہیں ہے، سردی کوئی شرعی عذر نہیں کہ اس وجہ سے نماز چھوڑی جائے ،بلکہ پانی گرم کرکے غسل کیا جاسکتا ہے۔

مشکوۃ شریف  میں ہے:

"وعن عبد الله بن عمر أنه قال: ذكر عمر بن الخطاب لرسول الله صلى الله عليه وسلم أنه تصيبه الجنابة من الليل فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: "توضأ واغسل ذكرك ثم نم".

(کتاب الطھارۃ، باب مخالطة الجنب،141/1،ط: المكتب الإسلامي)

حدیثِ پاک میں ہے:

"عن أبي سفيان، قال: سمعت جابرا رضي الله عنه يقول: سمعت النبي صلى الله عليه و سلم يقول: "إن بين الرجل و بين الشرك و الكفر ترك الصلاة."

(صحيح مسلم ،ج: 1، ص: 88، ط: دار إحياء التراث العربي)

"حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ : نماز کا چھوڑنا بندہ مؤمن اور شرک و کفر کے درمیان (کی دیوار کو ڈھا دیتا) ہے۔" (مظاہر حق جدید، ص:414)

حدیثِ پاک میں ہے:

’’عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه و سلم أنه: ذكر الصلاة يوما فقال: من حافظ عليها كانت له نورا و برهانا و نجاة يوم القيامة، و من لم يحافظ عليها لم يكن له نور و لا برهان و لا نجاة و كان يوم القيامة مع قارون و فرعون و هامان و أبي بن خلف."

(مسند أحمد ،ج: 11، ص: 141، ط: مؤسسة الرسالة)

’’حضرت عبد اللہ ابن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز کا ذکر کیا (یعنی نماز کی فضیلت و اہمیت کو بیان کرنے کا ارادہ فرمایا) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو شخص نماز پر محافظت کرتا ہے (یعنی ہمیشہ پابندی سے پڑھتا ہے) تو اس کے لیے یہ نماز ایمان کے نور (کی زیادتی کا سبب) اور ایمان کے کمال کی واضح دلیل ہوگی، نیز قیامت کے روز مغفرت کا ذریعہ بنے گی، اور جو شخص نماز پر محافظت نہیں کرتا تو اس کے لیے نہ (ایمان کے) نور (کی زیادتی کا سبب بنے گی،) نہ (کمال ایمان کی) دلیل اور نہ (قیامت کے روز) مغفرت کا ذریعہ بنے گی، بلکہ ایسا شخص قیامت کے روز قارون، فرعون، ہامان اور ابی ابن خلف کے ساتھ (عذاب میں مبتلا) ہوگا۔‘‘ (مظاہر حق جدید، ص:417)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144407102098

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں