بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حکومتی سکیم کے تحت ملنے والے قرضہ کے لینے کا حکم


سوال

 آج کل گورنمنٹ عوام کو گھر بنانے کے لیے آسان شرائط پر قرضے دے رہی ہے ایک کروڑ تک ، تین  فیصد مارک اَپ پر قرضہ لے سکتے ہیں، کیا یہ جائز ہے ؟

جواب

ہماری معلومات کے مطابق گورنمنٹ کی طرف سے ذاتی گھر مہیا  کرنے کے لیے جو اسکیم متعارف کروائی گئی ہے، اس کے لیے مختلف بینکوں اور اداروں کی طرف سے قرض فراہم کرنے کی دو صورتیں رائج ہیں: بعض بینک اور ادارے تو صریح سودی قرضہ فراہم کرتے ہیں، اس کا حکم تو  واضح ہے کہ ذاتی گھر کی خریداری کے لیے بھی سودی قرضہ کا لین دین ناجائز اور حرام ہے، جب کہ بعض بینک اور ادارے اس اسکیم کے ذریعہ گھر خریدنے کرنے کے لیے اگرچہ سودی قرضہ کے نام سے تو قرضہ فراہم نہیں کرتے ہیں، بلکہ ذاتی گھر خریدنے کے خواہش مند افراد کے ساتھ شرکتِ متناقصہ (diminishing musharka) کا معاملہ کرتے ہیں ، اور اس معاملے میں بہت سے شرعی اصولوں کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، مثلاً ایک ہی معاملے میں  كئي عقود (بیع، شرکت اور اجارہ) کو جمع کرنا اور عملاً ایک عقد کو دوسرے عقد کے لیے شرط قرار دینا وغیرہ، یعنی کسی بھی بینک یا ادارے کے ساتھ شرکتِ متناقصہ (diminishing musharka) کا معاملہ کرنے کی صورت میں حقیقتًا یا حکمًا دو عقد بیک وقت ہوتے ہیں ،ایک عقد بیع کا ہوتا ہے جس کی بنا پر قسطوں کی شکل میں ادائیگی خریدار پر واجب ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ ہی (اجارہ) کرائے کا معاہدہ بھی ہوتا ہے، جس کی بنا پر ہر ماہ کرائے کی مد میں بینک خریدار سے کرایہ بھی وصول کرتا ہے، اور یہ دونوں عقد حقیقتاً یا حکمًا ایک ساتھ ہی کیے جاتے ہیں، جب کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک عقد کی تکمیل سے پہلے اس عقد میں دوسرا عقد داخل کرنے سے منع فرمایا ہے، اسی طرح ایک عقد کے لیے دوسرے عقد کو شرط قرار دینا بھی شرعًا ممنوع ہے ، اس  لیے یہ طریقہ بھی  شرعی اصولوں پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے ناجائز   اور سودی قرضہ کا ایک ناجائز متبادل ہے۔

تفصیلی معلومات کے لیے ہماری کتاب ’’مروجہ اسلامی بینکاری‘‘ کا مطالعہ مفید رہے گا۔

  خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح سودی قرضہ لے کر ذاتی گھر خریدنا جائز نہیں ہے، اسی طرح کسی بھی بینک یا ادارے کے ساتھ  شرکتِ متناقصہ (diminishing musharka) کا معاملہ کر کے ذاتی گھر لینا بھی جائز نہیں ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ  وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ [البقرة : ۲۷۸ إلى ۲۸٠ ]

ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے۔ اور اگر تم توبہ کرلوگے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پر ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک اور یہ کہ معاف ہی کردو  زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه: كل قرض جر نفعاًحرام، فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن"

( كتاب البيوع، فصل فى القرض، مطلب کل قرض جر نفعا، ج:5، ص:166، ط: ايج ايم سعید)

تحفة الأحوذي شرح جامع الترمذی میں ہے:

"(قوله: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة) أي صفقة واحدة و عقد واحد ويأتي تفسير هذا عن المصنف.

(قوله: و قد فسر بعض أهل العلم قالوا: بيعتين في بيعة أن يقول: أبيعك هذا الثوب بنقد بعشرة وبنسيئة بعشرين و لايفارقه على أحد البيعين) قال في شرح السنة بعد ذكر هذا التفسير: هو فاسد عند أكثر أهل العلم؛ لأنه لايدرى أيهما جعل الثمن، انتهى. وقال في النيل: و العلة في تحريم بيعتين في بيعة عدم استقرار الثمن في صورة بيع الشيء الواحد بثمنين انتهى.  (فإذا فارقه على أحدهما فلا بأس إذا كانت العقدة على واحد منهما) بأن قال البائع: أبيعك هذا الثوب بنقد بعشرة وبنسيئة بعشرين، فقال المشتري: اشتريته بنقد بعشرة ثم نقد عشرة دراهم فقد صح هذا البيع وكذلك إذا قال المشتري اشتريته بنسيئة بعشرين وفارق البائع على هذا صح البيع لأنه لم يفارقه على إيهام وعدم استقرار الثمن بل فارقه على واحد معين منهما وهذا التفسير قد رواه الإمام أحمد في روايته عن سماك ففي المنتقى عن سماك عن عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود عن أبيه قال: نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن صفقتين في صفقة، قال سماك: هو الرجل يبيع البيع فيقول هو بنسأ بكذا وهو بنقد بكذا وكذا قال الشوكاني في النيل، قوله: من باع بيعتين في بيعة فسره سماك بما رواه المصنف يعني صاحب المنتقى عن أحمد عنه وقد وافقه على مثل ذلك الشافعي فقال بأن يقول: بعتك بألف نقدًا أو ألفين إلى سنة فخذ أيهما شئت أنت وشئت أنا ونقل بن الرفعة عن القاضي أن المسألة مفروضة على أنه قبل على الإبهام أما لو قال قبلت بألف نقد أو بألفين بالنسيئة صح ذلك انتهى.

واعلم أنه قد فسر البيعتان في بيعة بتفسير آخر وهو أن يسلفه دينارًا في قفيز حنطة إلى شهر فلما حلّ الأجل و طالبه بالحنطة قال: بعني القفيز الذي لك علي إلى شهرين بقفيزين فصار ذلك بيعتين في بيعة؛ لأنّ البيع الثاني قد دخل على الأول فيرد إليه أو كسهما و هو الأول كذا في شرح السنن لابن رسلان فقد فسر حديث أبي هريرة المذكور بلفظ نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة بثلاثة تفاسير فاحفظها."

(باب ما جاء في النهي عن بيعتين في بيعة، ج:4، ص:357، ط:دارالكتب العلمية)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144208201089

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں