بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حکومتی پابندی کے باوجود شکار کی ہوئی مچھلیوں کا حکم


سوال

ایک مچھلی ہے  جسے بنگلہ زبان میں 'الیش' کہتے ہیں۔ ماہرین کی ہدایت کے مطابق حکومت  مخصوص ایام میں اس مچھلی کو شکا ر کرنے سے منع کردیتی ہے، جب کہ اس مچھلی کا انڈا دینے اور نشو ونما کا وقت ہوتا ہے۔ اس پابندی سے اس مچھلی کی پیداور میں کئی برس سے اچھا خاصہ اضافہ بھی ہوا ، جیساکہ اخبارات سے پتا  لگتا ہے۔ لیکن کچھ لوگ خلافِ  قانون اس وقت بھی مچھلی پکڑتے ہیں۔ حکومتی افراد  ان کو پکڑلیں تو ان سے مچھلی چھین لیتے ہیں ، پھر یتیم خانہ اور مدارس میں  دے دیتے ہیں،  اب ہمیں چند حکم دریافت کرنے ہیں:

1- ممنوع وقت میں اگر کسی نے مچھلی شکار کر لیا تو وہ اس کا مالک ہوگا یا نہیں؟

2-   کیا ایسی مچھلی خرید کرنا از روئے شرع جائز ہوگا؟

3-  کیا اربابِ مدرسہ کے لیے  حکومت سے ایسا مچھلی لینا جائز ہوگا؟

4-  کیا مدرسہ کے طلبہ کے لیے ایسی  مچھلی کھانا جائز ہوگا؟

5-  کیا غریب اور مال دار ہونے کی حیثیت سے ان کے حکم میں فرق ہوگا؟ اساتذہ کو ایسا مچھلی کھلانا اور کھانا جائز ہوگا؟

جواب

ملحوظ رہے  جب حکومت کی طرف سے عوام الناس کے مفاد  کی خاطر جائز اشیاء  کی ممانعت اور اس پر پابندی ہو تو عوام الناس کے  لیے  حکومتی احکامات کی پاس داری کرتے ہوئے اس سے اجتناب  ضروری ہے؛ کیوں کہ کسی بھی ریاست میں رہنے والا شخص اس ریاست میں رائج قوانین پر عمل درآمد کا (خاموش)  معاہدہ کرتاہے، اور جائز امور میں معاہدہ کرنے کے بعد اسے پورا کرنا ریاست کے ہر فرد پر دیانتًا ضروری ہوتاہے؛  اس طرح کے جائز امور  سے متعلق قانون کی خلاف ورزی گویا معاہدہ کی خلاف ورزی تصور ہوتی ہے، اور کسی بھی جائز معاہدے کی خلاف ورزی سے شریعت نے منع کیا ہے۔ نیز قانون شکنی کی صورت میں  مال اور عزت کا خطرہ رہتا ہے، اور پکڑے جانے کی صورت میں مالی نقصان کے ساتھ ساتھ سزا  ملنے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے،  اور اپنے آپ کو ذلت  کے مواقع سے بچانا شرعاً ضروری ہے، مذکورہ تمہید کے بعد مطلوبہ سوالوں کے جوابات مندرجہ ذیل ہے:

 1: سمندروں میں موجود مچھلیاں اصلًا مباح ہیں، لہذا حکومتی پابندی کے باوجود  ماہی گیر شکار  کی ہوئی مچھلیوں کا مالک ہوگا، تاہم چوں کہ قانونی طور پر  مفادِ عامہ کی خاطر حکومتی سطح پر ان ایّام میں شکار ممنوع ہے تو  اس سے گریز کرنا چاہیے۔

2: ماہی گیر سے مذکورہ مچھلیاں خریدنا جائز ہے۔

3، 4،  5:مذکورہ ایّام میں مچھلیوں کا شکار اگرچہ ممنوع ہے، تاہم حکومت کے لیے جائز قانون کی خلاف ورزی کی وجہ سے مذکورہ مال ماہی گیروں سے ضبط کرکے اپنی تحویل میں لینا جائز نہیں ہے، کیوں حکومت کے  لیے قانونی خلاف ورزی کی وجہ سے سزا دینا تو جائز ہے، تاہم مالی جرمانہ لاگو کرنا جائز نہیں ہے، لہذا  منتظمینِ  مدرسہ کے  لیے حکومت کی طرف سے ضبط شدہ ایسی مچھلیاں  لینا جائز نہیں ہے،اور نہ ہی حکومت کی طرف سے ملنے والی ایسی مچھلیوں کا استعمال کرنا  طلبہ و  اساتذہ میں سے کسی کے لیے  جائز  ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي...والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال،" 

(كتاب الحدود، باب التعزير، مطلب فى التعزير باخذالمال، ج:4، ص:62، ط:ايج ايم سعيد)

قرآن مجید میں ہے:

{واوفوا بالعهد فإن العهد كان مسئولا} [الإسراء، رقم الآية:34]

ترجمہ: عہد کو پورا کرو؛ کیوں کہ قیامت کے دن عہد کے بارےمیں انسان جواب دہ ہوگا۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة أنّ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال آية المنافق: ثلاث إذا حدّث كذب، و إذا وعد أخلف، و إذا أوتمن خان". 

(مشکاۃ المصابیح، کتاب الایمان، باب الکبائر وعلامات النفاق، رقم الحدیث:55، ج:1، ص:23،  ط:المکتب الاسلامی)

بدائع الصنائع میں ہے:

"لأنّ طاعة الإمام فيما ليس بمعصية فرض، فكيف فيما هو طاعة؟"

(كتاب السير، فصل فى أحكام البغاة، ج:9، ص :453، ط:دارالحديث. القاهرة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144207200311

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں