بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بلا سود قرض اسکیم کا حکم


سوال

یہ جو  قرضہ سکیم آئی ہے بلا سود ،یہ ہم لے سکتے ہیں؟

اور میں بزنس کے لیے لے کر مکان کی تعمیر میں لگا سکتا ہوں کہ نہیں، جس کے لیے لیا ہو اسی میں  لگائیں؟

جواب

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق جو  قرضہ اسکیم میں قرض کی مقدار  کے حساب سے تین  درجہ ہیں ،صرف پہلا یعنی  T-1 میں بلا سود قرض دیا جاتا ہے اور  5 لاکھ سے کم قرض دیا جاتا ہے ،اس کے متعلق حکم یہ ہے کہ اگر واقعۃ بلا سود قرض دیا جارہا ہو ،یعنی اگر ایک لاکھ قرض لیا تو ایک لاکھ ہی واپس کرنے ہوں ،سروس چارجز وغیرہ کی مد میں اضافی رقم نہ وصول کی جارہی ہو تو اس قرضہ کا لینا شرعا جائز ہے ۔

باقی  دو درجہ یعنی T-2 اور T-3 ،یہ دونوں سود پر مشتمل  قرض  ہیں جو کہ شرعاً ناجائز  اور حرام ہے ۔

نیز  T-1 میں حکومت سے قرض وصول کرنے کے بعد   سائل اس رقم کا مالک بن جائے گا ،پھر سائل اپنی ضرورت  کے مطابق اس رقم جہاں استعمال کرنا چاہےاستعمال کرسکتاہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه: كل قرض جر نفعاًحرام، فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن."

(کتاب البیوع، فصل فی القرض، مطلب كل قرض جر نفعا حرام   (5/ 166) ط: سعيد،كراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100930

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں