ہماری قوم کی مشترکہ زمین تھی، تقریباً دو سو سال پہلے کی بات ہے، وہ تقسیم ہو گئی، اب اگر حکومت کی طرف سے کوئی زمین یا نقدی وغیرہ اس قوم کے نام آ جائے تو اس کی تقسیم کا طریقہ کار کیا ہو گا؟کیا اس پرانی تقسیم کی مطابق تقسیم کریں گے یا کوئی اور طریقہ ہے؟
حکومت کی جانب سے ملنے والی رقم وغیرہ ہدیہ شمار ہو گی ، اور جن کے نام پر جاری کی گئی ہو وہی اس کا مالک شمار ہو گا، باقی افراد کا حصہ نہیں ہو گا، البتہ اگر حکومت کی جانب سے تمام افراد کی صراحت کے ساتھ کوئی رقم وغیرہ دی گئی ہو تو ایسی صورت میں اس میں ان تمام افراد کا حق و حصہ ہو گا۔
امداد الفتاوی میں ہے:
’’چوں کہ میراث مملوکہ اموال میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسانِ سرکار ہے، بدون قبضہ کے مملوک نہیں ہوتا، لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں میراث جاری نہیں ہوگی، سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہیں تقسیم کردے‘‘۔
(کتاب الفرائض،ج:4، ص:343، عنوان: عدم جریان میراث در وظیفہ سرکاری تنخواہ، ط: دارالعلوم)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611100591
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن