بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حکومتی سبسڈی سے گندم خرید کر صدقۂ فطر ادا کرنے کا حکم


سوال

 ہمارے علاقہ اپر چترال میں گندم رائج الوقت گودام سے خریدی جارہی ہے جس میں سبسڈی بھی شامل ہے اور مارکیٹ میں گندم نہیں بھیجی جارہی ہے ،  اب یہ پوچھنا ہے کہ ہم اس سبسڈی والی  گندم کے اعتبار سے صدقہ فطر ادا کریں گے یا کیا کریں؟

جواب

واضح رہے کہ  صدقۂ فطر میں بازاری بھاؤ کا اعتبار ہوتا ہے، یعنی صدقۂ فطر اس قیمت سے ادا کیا جاتا ہے جو نرخ عام بازاروں میں ہوتا ہے   خواہ اسی  نرخ  سے دیا جائے  خواہ قریب تر جگہ جہاں عام  گند م ملتی  ہے وہاں کی قیمت اعتبار کرلیا جائے  ۔ 

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر   حکومتی سبسڈی والی گندم خرید لی اور گندم کی جنس ہی صدقۂ فطر میں دے تو دے سکتا ہے ، البتہ اگر  صدقۂ فطر میں گندم  کی قیمت دینی ہے تو عام مارکیٹ کے ریٹ کا اعتبار ہو گا ، سبسڈی والی گندم کی قیمت  کا اعتبار نہیں  ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويقوم في البلد الذي المال فيه ولو في مفازة ففي أقرب الأمصار إليه فتح."

(‌‌كتاب الزكاة، باب زكاة الغنم، ج:2، ص:286، ط:سعيد)

البحر الرائق  میں ہے :

"ويقوم ‌العرض ‌بالمصر الذي هو فيه حتى لو بعث عبدا للتجارة في بلد آخر يقوم في ذلك الذي فيه العبد وإن كان في مفازة تعتبر قيمته في أقرب الأمصار إلى ذلك الموضع كذا في فتح القدير."

(كتاب الزكاة، باب زكاة المال، زكاة عروض التجارة، ج:2، ص:246، ط:رشيدية)

فتح القدير لكمال ابن الهمام میں ہے:

"(قوله يقومها) أي المالك في البلد الذي فيه المال حتى لو كان بعث عند التجارة إلى بلد أخرى لحاجة فحال الحول يعتبر قيمته في ذلك البلد، ولو كان في مفازة تعتبر قيمته في أقرب الأمصار إلى ذلك الموضع، وكذا في الفتاوى."

(‌‌‌‌‌‌كتاب الزكاة، باب زكاة المال، فصل في العروض، ج:2، ص:219، ط:مطبعة مصفى البابي الحلبي)

فتاوی  ہندیہ میں ہے:

"ويقومها المالك في البلد الذي فيه المال حتى لو بعث عبدا للتجارة إلى بلد آخر فحال الحول تعتبر قيمته في ذلك البلد، ولو كان في مفازة تعتبر قيمته في أقرب الأمصار إلى ذلك الموضع كذا في فتح القدير ناقلا عن الفتاوى."

(كتاب الزكاة، الباب الثالث، مسائل شتى في الزكاة، ج:1، ص:180،ط:رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409101193

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں