بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حکومتی ملازمین کا اپنے مفوضہ کاموں پر رقم اور دیگر اشیاء کے مطالبہ کا حکم


سوال

کیا یہ جائز ہے کہ حکومتی ملازمین کو ان کے متعلقہ شعبہ کا قانونی کام مکمل کرنے پر کچھ نقدی یا دیگر اشیاء دی جائیں؟ ایک پولیس والے نے  ایک قانونی کام میں مدد کرنے پر دو کپڑے کے جوڑے کا مطالبہ کیا،اسی طرح ایک کلرک نے پانی کا خراب میٹر کی مرمت پر کچھ رقم کا مطالبہ کیا اور ایک حکومتی ملازم نے ہم سے بجلی کا میٹر  لگانے پر کچھ رقم کا مطالبہ کیا۔بہت سارے حکومتی ملازمین سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے جو قانونی کام کرنے پر رقم کامطالبہ کرتے ہیں۔ 

جواب

واضح رہے کہ  حکومتی ملازمین کا ان کے سپرد کردہ ذمہ داری کو پورا کرنے پر لوگوں سے نقدی یا مختلف اشیاء کا مطالبہ شرعا نا جائز ہے اور رشوت کے حکم میں ہے، لہذا سائل  کو ان کا یہ مطالبہ پورا نہیں کرنا چاہیے، البتہ اگر کوئی ایسی مجبوری کی صورت ہو کہ سائل کی طرف سے تمام قانونی تقاضے پورے ہوں اور حکومتی ملازم اس کے باوجود سائل کا کام (جو کہ ہر شہری کا ایک حق ہے) رشوت کے بغیر پورا کرنے پر راضی نہ ہو تو  اول تو کوشش کی جائے کہ متعلقہ ادارہ کے ذمہ داران تک یہ شکایت پہنچائی جائے اور اگر اس سے بھی کسی قسم کے فائدہ کی امید نہ ہو تو اپنے حق کے حصول کے لیے سائل اس حکومتی ملازم کو رشوت دے کر اپنا کام پورا کروالے، ایسا کرنے کی صورت میں سائل پر گناہ نہیں ہوگا، لیکن حکومتی ملازم گناہ گار ہوگا اور آخرت میں سخت مواخذہ ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"الرشوة لا تملك بالقبض.

لا بأس بالرشوة إذا خاف على دينه والنبي - عليه الصلاة والسلام  كان يعطي الشعراء ولمن يخاف لسانه وكفى بسهم المؤلفة من الصدقات دليلا على أمثاله.

و في الرد : (قوله لا تملك بالقبض) فله الرجوع بها وذكر في المجتبى بعد هذا ولو دفع الرشوة بغير طلب المرتشي، فليس له أن يرجع قضاء ويجب على المرتشي ردها وكذا العالم إذا أهدى إليه ليشفع أو يدفع ظلما فهو رشوة. ثم قال بعد هذا سعى له عند السلطان وأتم أمره لا بأس بقبول هديته بعد وقبله بطلبه سحت وبدونه مختلف فيه، ومشايخنا على أنه لا بأس به وفي قبول الهدية من التلامذة اختلاف المشايخ ط (قوله إذا خاف على دينه) عبارة المجتبى لمن يخاف، وفيه أيضا دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن نفسه وماله ولاستخراج حق له ليس برشوة يعني في حق الدافع اهـ"

(کتاب الحظر و الاباحۃ، فصل فی البیع ج نمبر ۶ ص نمبر ۴۲۳،ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101313

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں