بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 ذو الحجة 1446ھ 13 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

حکومت سے کاشت کاری کے لیے بطورِ اجارہ لی ہوئی سرکاری زمینوں پر تعمیرات کردہ مکانات میں بہن بیٹیوں کو وراثتی حصہ نہ دینا


سوال

 ہمارے علاقے میں بعض زمینیں سرکاری زمینیں کہلاتی ہیں، اس سے مراد وہ زمینیں ہیں جوسرکار نے یہاں کے لوگوں کو  اجارہ کے طور پر دی تھیں، لیکن یہاں کے کاشت کار ان زمینوں میں ایسے تصرفات کرتے ہیں جیسے کہ اپنی ملکیت کی زمینوں میں کیے جاتے ہیں، مثلاً ان زمینوں کو فروخت بھی کرتے ہیں، ان پر تعمیرات بھی کرتے ہیں، ان زمینوں پر شفعہ وغیرہ بھی کرتے ہیں،  لیکن جب ان کی بہنیں حقِ میراث مانگتی ہیں تو بھائی کہتا ہے کہ یہ سرکاری زمینیں ہیں ان میں میراث جاری نہیں ہوتی، حالاں کہ سارے بھائی باپ کے انتقال کے بعد ان زمینوں کو آپس میں برابر برابر اس طرح تقسیم کرتے ہیں کہ ایک انچ کا فرق بھی نہیں ہوتا، لیکن جب بات بہنوں کی آتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ سرکاری زمین ہے، حالاں کہ زمین دار کا یہ کہنا کہ یہ سرکاری زمین ہے،  اس میں قولاً اور فعلاً تضاد ہوتا ہے، قولاً تضاد اس طرح ہے کہ یہ بات وہ مفتی کے سامنے کرسکتا ہے لیکن عدالت میں یہ نہیں کہہ سکتا، کیوں کہ عدالت میں زمین واپس لینے کا خوف ہوتا ہے اور فعلاً تضاد اس طرح ہوتا ہے کہ وہ ان زمینوں میں اس طرح تصرفات کرتا ہے جیسے کہ اپنی ملکیت والی زمین میں ہوتے ہیں، مثلاً وہ ان زمینوں کو فروخت بھی کرتا ہے، تعمیرات بھی کرتا ہے،  شفعہ بھی کرتا ہے۔

صرف بہنوں کو محروم کرنے کے لیے اس طرح کہتے ہیں کہ یہ سرکاری زمینیں ہیں ،ان زمینوں میں  بہنوں کا حق میراث ثابت ہوگا یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ سرکاری زمین میں  حکومت  کی اجازت کے بغیر  گھر بناکر  رہائش اختیار کرنایا اسے فروخت کرکےرقم حاصل کرنا یا  اسے کسی دوسرے ذاتی تصرف میں لانا جس کی سرکار نے اجازت نہ دی ہو، شرعاً  ناجائز ہے، شریعت میں مالِ غیر غصب کر نے پر سخت وعیدیں آئی ہیں۔

لہذا بصورت مسئولہ اگر واقعتًا مذکورہ زمینیں سرکاری ہیں اور  حکومت و سرکار  سے بطورِ اجارہ لی گئی تھیں تواولاً  سرکار کی اجازت کے بغیراُن  زمینوں میں ذاتی تصرفات مثلا خریدوفروخت کرنا، تعمیرات وغیرہ کرناجائز نہیں ہے۔اور جو لوگ اِس قسم کے ذاتی تصرفات کریں وہ مذکورہ زمین کے مالک نہیں بنیں گے، نیز  جب اِن زمینوں کے بارے میں یہ یقین ہے کہ یہ سرکاری جگہ پر قبضہ کیا گیا ہے، تو اِن مغصوبہ و مقبوضہ زمینوں میں وراثت بھی جاری نہیں ہوگی، کیوں کہ وراثت اسی مال میں جاری ہوتی ہے جو مرنے والے کی ملکیت میں ہو،جب کہ سرکاری زمین کسی کی ملکیت میں نہیں ہوتی۔

تاہم کسی شخص نے سرکاری زمین پر حکومت کی اجازت کے بغیر  مکان وغیرہ تعمیر کیا تو وہ شخص اگر چہ زمین کا تو مالک نہیں بن سکتا، لیکن اِس مغصوبہ زمین پر تعمیر کردہ عمارت کا وہ مالک ہوتا ہے، لہذا اس کی موت کے بعد زمین کے علاوہ فقط  عمارت کی جتنی مالیت ہوگی اس میں مرحوم کے تمام ورثاء اپنے اپنے حصۂ میراث  کے تناسب سے شریک ہوں گے، عمارت کی مالیت میں مرحوم کے بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں/ بھائیوں کے ساتھ بہنوں کا بھی حق و حصہ ہوگا، لہذا انہیں محروم کرنا  شرعاً جائز نہیں ہے۔ بہن بیٹیوں کا وراثتی حق و حصہ اِسی دنیا  میں نہ دیا گیا تو آخرت میں بہت بڑا وبال بنے گا۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة»، رواه ابن ماجه".

(باب الوصایا، الفصل الثالث، ج:1، ص:266، ط: قدیمی)

ترجمہ :”حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا، (یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔“

صحیح بخاری میں ہے :

 "عن سالم، عن أبيه رضي الله عنه قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: من أخذ من الأرض شيئًا بغير حقه خسف به يوم القيامة إلى سبع أرضين."

(كتاب المظالم والغصب ، باب إثم من ظلم شيئا من الأرض،ج:3، ص:130، ط: دار طوق النجاة)

ترجمہ: ”سالم بن عبداللہ بن عمر نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے کسی کی زمین میں سے کچھ ناحق لے لیا تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔“

فتاوی شامی میں ہے:

"لا يجوز لأحد من المسلمين ‌أخذ ‌مال ‌أحد بغير سبب شرعي."

( كتاب الحدود، باب التعزيز، ج:4، ص:61، ط:سعيد)

وفيه ايضا:

"(قوله الخالية إلخ) صفة كاشفة لأن تركة الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال كما في شروح السراجية."

(كتاب الفرائض، ج:6، ص:759، ط:سعيد)

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"أعيان المتوفى المتروكة مشتركة بين - وارثيه، على حسب حصصهم الإرثية بموجب علم الفرائض."

(الكتاب العاشر الشركات، الباب الأول في بيان شركة الملك، الفصل الثالث في بيان الديون المشتركة، ج:3، ص:55، ط: دار الجيل)

فقط والله تعالى أعلم بالصواب


فتوی نمبر : 144611102692

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں